طارق شاہ
محفلین
غزلِ
دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم
لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم
لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم
تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم
دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم
یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم
بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی !
دُکھ کب تِرے خیال سے ڈھوتے نہیں ہیں ہم
اب، دسترس میں جب نہیں اِک دِید تک رہی
کب چشمِ اِلتفات کو روتے نہیں ہیں ہم
چاہت کسی کی جاں کو نہ آجائے سوچ کر
دل میں خود اپنے بیج یہ بوتے نہیں ہم
جس نے کبھی نہ پیار سے دیکھا ہمیں، خلش
اُس کی طلب سے ہاتھ بھی دھوتے نہیں ہیں ہم
شفیق خلش
دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم
لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم
لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم
تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم
دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم
یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم
بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی !
دُکھ کب تِرے خیال سے ڈھوتے نہیں ہیں ہم
اب، دسترس میں جب نہیں اِک دِید تک رہی
کب چشمِ اِلتفات کو روتے نہیں ہیں ہم
چاہت کسی کی جاں کو نہ آجائے سوچ کر
دل میں خود اپنے بیج یہ بوتے نہیں ہم
جس نے کبھی نہ پیار سے دیکھا ہمیں، خلش
اُس کی طلب سے ہاتھ بھی دھوتے نہیں ہیں ہم
شفیق خلش
آخری تدوین: