طارق شاہ
محفلین
غزلِ
دوستی اُن سے میری کب ٹھہری
اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری
ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے
یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری
حالِ دل خاک جانتے میرا
گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری
تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے
اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری
دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ
اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری
کیا عِلاج اُن سے میرے درد کا ہو
آہ میری جنھیں طرب ٹھہری
جائے گی لے کے اِنتظار کو ساتھ
اُن کی فُرقت میں جاں بَلب ٹھہری
اب تو دِن کو بھی دیکھتے ہیں خلش
کُچھ قیامت سے کم نہ شب ٹھہری
شفیق خلش
دوستی اُن سے میری کب ٹھہری
اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری
ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے
یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری
حالِ دل خاک جانتے میرا
گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری
تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے
اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری
دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ
اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری
کیا عِلاج اُن سے میرے درد کا ہو
آہ میری جنھیں طرب ٹھہری
جائے گی لے کے اِنتظار کو ساتھ
اُن کی فُرقت میں جاں بَلب ٹھہری
اب تو دِن کو بھی دیکھتے ہیں خلش
کُچھ قیامت سے کم نہ شب ٹھہری
شفیق خلش