طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
دوستی جب بھی کچھ بتاں سے رہے
دشمنی میری اک جہاں سے رہے
بحر میں تشنگی کے ڈوب گیا
لمحہ بھر بھی جو وہ نہاں سے رہے
روز تہمت کا سامنا ہو جہاں
کوئی خوش بھی وہاں کہاں سے رہے
کرب چہرے نے کردئے ظاہر
زخم دل کے اگر نہاں سے رہے
جن کی فرقت نے کردیا بوڑھا
وہ تصّور میں کیا جواں سے رہے
دل میں خواہش تھی وصل کی لیکن
سامنے ان کے اس بیاں سے رہے
اُن حسینوں کی نا رَسی توبہ
میری نظروں سے جو نہاں سے رہے
اک عمل بھی نہیں تھا پوشیدہ
ساری دنیا پہ ہم عیاں سے رہے
رچ گئے مجھ میں وہ خلش بن کر
جو تخیّل میں جانِ جاں سے رہے