شفیق خلش :::: دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ :::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


c81l.jpg

شفیق خلش

غزل

دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ

ہو مثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ
کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ

آ بسو دل کی طرح گھر میں بھی اے خوش اِلحان
زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ

رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے
ہمسفرتم جو لِئے اپنے یہ چھب بن جاؤ

میں نے چاہا تھا سرِصُبْحِ جوانی بھی یہی
تم ہی سانسوں کی مہک، دل کی طلب بن جاؤ

کچھ تو احساس چَھٹے دل سے اندھیروں کا مِرے
زیستِ تاریک کو اِک شمعِ شب بن جاؤ

دل میں رکھتا ہُوں محبّت کا خزانہ جاناں
چھوڑکرسارا جہاں میری ہی اب بن جاؤ

ذات قربت سے ہمیشہ ہی منوّر چاہوں
کب کہا اُس سے خلش رونقِ شب بن جاؤ

شفیق خلش
 

ظفری

لائبریرین
واہ بہت خوب ۔۔۔۔ کیا انتخاب ہے ۔ مطلع کی تو بات ہی کیا ہے ۔

دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ
 

طارق شاہ

محفلین
تشکّراظہار خیال اور پذیرائیِ انتخاب پر جناب کاشفی اور ظفری صاحب
خوشی ہوئی جو منتخبہ غزل آپ صاحبان کو پسند آئی
بہت خوش رہیں :):)
 
Top