طارق شاہ
محفلین
شفیق خلش
غزل
دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ
ہو مثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ
کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ
آ بسو دل کی طرح گھر میں بھی اے خوش اِلحان
زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ
رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے
ہمسفرتم جو لِئے اپنے یہ چھب بن جاؤ
میں نے چاہا تھا سرِصُبْحِ جوانی بھی یہی
تم ہی سانسوں کی مہک، دل کی طلب بن جاؤ
کچھ تو احساس چَھٹے دل سے اندھیروں کا مِرے
زیستِ تاریک کو اِک شمعِ شب بن جاؤ
دل میں رکھتا ہُوں محبّت کا خزانہ جاناں
چھوڑکرسارا جہاں میری ہی اب بن جاؤ
ذات قربت سے ہمیشہ ہی منوّر چاہوں
کب کہا اُس سے خلش رونقِ شب بن جاؤ
شفیق خلش