طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو
لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو
نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو
بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے پیار نے پھر سے سجا دِیا مجھ کو
خلِش پہ صبر کا عنصر تھا غالب آنے کو
کِھلے گُلاب نے چہرہ دِکھا دِیا مجھ کو
شفیق خلش
شفیق خلش
مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو
لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو
نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو
بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے پیار نے پھر سے سجا دِیا مجھ کو
خلِش پہ صبر کا عنصر تھا غالب آنے کو
کِھلے گُلاب نے چہرہ دِکھا دِیا مجھ کو
شفیق خلش