طارق شاہ
محفلین
شفیق خلش
غزل
نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے
محبت کو جیسے اثر مِل گئی ہے
سرِشام ، وہ بام پر آئے ، شاید
ہم آئے گلی میں خبر مِل گئی ہے
مزید اب خوشی زندگی میں نہیں ہے
تھی قسمت میں جومختصرمِل گئی ہے
گِلہ کیوں کریں ہم مِلی بے کلی کا
توسّط سے اُس کے اگرمِل گئی ہے
ہمہ وقت طاری جو رہتی تھی ہم پر
اب اُس تیرگی کو سحرمِل گئی ہے
دُعائیں کہاں نا رسا اب رہی ہیں
خوشی جس پہ تھی منحصرمِل گئی ہے
خلش، زندگی پر ہمیں ناز کیا کم
محبّت کو اِک خوش نظرمِل گئی ہے
شفیق خلش
آخری تدوین: