طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
نظر جیسی نظر ہو تو نظارے بول پڑتے ہیں
اشارے ہوں نہاں، اِس کے سہارے بول پڑتے ہیں
ہمارے دیس میں اب تک کئی ایسے علاقے ہیں
ڈھلےسورج جہاں سوئے چوبارے بول پڑتے ہیں
چھپائے لاکھ ہی اُس کو سمندر اپنی موجوں میں
کسی طوفاں کی آمد کا، کنارے بول پڑتے ہیں
عیاں کرنا نہ چاہے عشق کو اپنے، کوئی جتنا
سلگتا دل ہو گر اِس میں، شرارے بول پڑتے ہیں
لگی ہو چپ زمانے سے کسی بھی بات پر، لیکن
جہاں ہو ذکر شادی کا، کنوارے بول پڑتے ہیں
کہاں سے دیر تک سونا میّسر ہو اب اُس گھر میں
جہاں پر صبْحِ صادق ہی غرارے بول پڑتے ہیں
خلش کیسے کریں اُن سے کوئی بھی بات دُکھڑے کی
ذرا جو دل پسیجا، غم وہ سارے بول پڑتے ہیں
شفیق خلش