طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
نہیں ہو پاس بھی ہو پاس تم مگر میرے
وہ اور بات تھی ہوتے جو تم اگر میرے
جو چھوڑ آئے تھے جاناں تمھارے جانے پر
وہ یاد آتے ہیں اب بھی تو بام و در میرے
نہیں ہوں جن کی مسافت میں کچُھ مِلن کے گمُاں
سُکون دیتے ہیں مجھ کو وہی سفر میرے
وہاں رہا نہ کوئی، اور یہاں کُھلا نہ کوئی
نہیں ہے گھر تو بھلا ہوں کہاں سے در میرے
رہینِ دل ہو تو ہر فکر، ہر خیال میں تم
رہے ہو تم ہی تو ہر راہ ہمسفر میرے
خلش وہی تو مِری شکل سے بھی ظاہر ہیں
کہ جبر اُن کے تھے اور جبر کے اثر میرے
شفیق خلش
شفیق خلش
نہیں ہو پاس بھی ہو پاس تم مگر میرے
وہ اور بات تھی ہوتے جو تم اگر میرے
جو چھوڑ آئے تھے جاناں تمھارے جانے پر
وہ یاد آتے ہیں اب بھی تو بام و در میرے
نہیں ہوں جن کی مسافت میں کچُھ مِلن کے گمُاں
سُکون دیتے ہیں مجھ کو وہی سفر میرے
وہاں رہا نہ کوئی، اور یہاں کُھلا نہ کوئی
نہیں ہے گھر تو بھلا ہوں کہاں سے در میرے
رہینِ دل ہو تو ہر فکر، ہر خیال میں تم
رہے ہو تم ہی تو ہر راہ ہمسفر میرے
خلش وہی تو مِری شکل سے بھی ظاہر ہیں
کہ جبر اُن کے تھے اور جبر کے اثر میرے
شفیق خلش
آخری تدوین: