طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
" ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے "
ٹھہرنا پل کو کہاں اختیارِ راہ میں ہے
نہیں ہے لُطف کا جس سے شُمار راہ میں ہے
دِیا ہے خود پہ جسے اختیار راہ میں ہے
کہاں کا وہم! یقیں ہے مجھے اجل کی طرح
وہ میں نے جس پہ کِیا اعتبار راہ میں ہے
زیاں مزِید نہ ہو وقت کا اے چارہ گرو !
جسے ہے دِل پہ مِرے اختیار راہ میں ہے
کہاں پہ لائی ہے منزِل کی جستجو مجھ کو
کوئی پیادہ، نہ کوئی سوار راہ میں ہے
پہنچ نہ پائے محبّت کی کوئی منزل کو
عداوتوں کا وہ گرد و غُبار راہ میں ہے
خبر دو میرے وطن کے سب بھائی بہنوں کو
کہ بندہ ہجر کی اذیت گزار راہ میں ہے
یہی بس سوچ کے بیٹھے ہیں خوش بہ راہِ چمن
بہار بھی نہیں جس بن بہار، راہ میں ہے
یہ دیکھیے کہ پہنچتا ہے کون پہلے اب
مِری اجل کی طرح میرا یار راہ میں ہے
گزُر گئی ہے خلِش عُمر اِک یہی سُنتے !
وہ جس کا تجھ کو رہا انتظار، راہ میں ہے
شفیق خلش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصرع طرحہ
"ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے"
خواجہ حیدر علی آتش
آخری تدوین: