شفیق خلش شفیق خلش ::::: پھر وہی گونج ہے باتوں کی بیاں سے باہر ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزل
شفیق خلش

پھر وہی گونج ہے باتوں کی بیاں سے باہر
پھر وہی تیغ ہے نظروں میں، مَیاں سے باہر

کیسا یہ درد سمایا ہے جگر میں میرے !
خود پہ کُھلتا نہیں، اُن کے بھی گُماں سے باہر

کبھی باہر تھی بیاں سے، تو تھی اُلفت اُن کی
اُن کی رنجش بھی ابھی ہے تو بیاں سے باہر

کاش ہوتے نہ جو اپنے، تو نِکلتا شاید !
لاوہ اندر سے جو نِکلا نہ زباں سے باہر

جاں کو محبُوب ہُوا درد، مِری جاں سوچے
اب کہاں جائے گا ، ہوگا جو یہاں سے باہر

پہرے دہشت کے خلش اور کہیں موت کے ہیں !
گھر سے نکلے بھی بھلا کوئی کہاں سے باہر

شفیق خلش
 

شیزان

لائبریرین
پہرے دہشت کے خلش اور کہیں موت کے ہیں !
گھر سے نکلے بھی بھلا کوئی کہاں سے باہر

حسب حال شعر۔۔
عمدہ انتخاب پر شکریہ شاہ جی
 
Top