طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
پھر وہی گونج ہے باتوں کی بیاں سے باہر
پھر وہی تیغ ہے نظروں میں، مَیاں سے باہر
کیسا یہ درد سمایا ہے جگر میں میرے !
خود پہ کُھلتا نہیں، اُن کے بھی گُماں سے باہر
کبھی باہر تھی بیاں سے، تو تھی اُلفت اُن کی
اُن کی رنجش بھی ابھی ہے تو بیاں سے باہر
کاش ہوتے نہ جو اپنے، تو نِکلتا شاید !
لاوہ اندر سے جو نِکلا نہ زباں سے باہر
جاں کو محبُوب ہُوا درد، مِری جاں سوچے
اب کہاں جائے گا ، ہوگا جو یہاں سے باہر
پہرے دہشت کے خلش اور کہیں موت کے ہیں !
گھر سے نکلے بھی بھلا کوئی کہاں سے باہر
شفیق خلش