طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آجائیں
پھر آ کے چلے جائیں ، اِک بار تو آ جائیں
ہے وقت یہ رُخصت کا، بخشش کا، تلافی کا
سمجھیں نہ جو، گر اِس کو بیکار تو آجائیں
اِک دِید کی خواہش پہ اٹکا ہے یہ دَم میرا
کم کرنا ہو میرا کچھ آزار تو آ جائیں
جاں دینے کو راضی ہُوں، اے پیکِ اجل لیکن
کچھ دیر تو رُک جاؤ، سرکار تو آجائیں
جائیں نہ خلش لے کر ہم سُوئے عدم حسرت
مقصُود ہو اُن کو بھی دِیدار، تو آجائیں
شفیق خلش