طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی اب گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کچھ نہیں پھر بھی
اونچا اونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا ہے
تار ٹُوٹے ہیں زندگی کے سبِھی
ساز دل کا سُنائی دیتا ہے
کیسے گزرے گی زندگی تنہا
دل بھی اب تو دُہائی دیتا ہے
میری آنکھوں کو عِشق اشکوں کی
پھر سے اپنی کمائی دیتا ہے
روز کرتا رہا جو مجھ پہ سِتم
دوست اب بھی دِکھائی دیتا ہے
رہنما کچھ بھی جب نہیں ہوتا!
راستہ کب دِکھائی دیتا ہے
اُن کے شانے سے، سر لگا کے خلش
ہم کو رونا سُجائی دیتا ہے
دُور ایسا کیا ہے قسمت نے!
کب یہ مُمکن دِکھائی دیتا ہے
شفیق خلش
شفیق خلش
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی اب گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کچھ نہیں پھر بھی
اونچا اونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا ہے
تار ٹُوٹے ہیں زندگی کے سبِھی
ساز دل کا سُنائی دیتا ہے
کیسے گزرے گی زندگی تنہا
دل بھی اب تو دُہائی دیتا ہے
میری آنکھوں کو عِشق اشکوں کی
پھر سے اپنی کمائی دیتا ہے
روز کرتا رہا جو مجھ پہ سِتم
دوست اب بھی دِکھائی دیتا ہے
رہنما کچھ بھی جب نہیں ہوتا!
راستہ کب دِکھائی دیتا ہے
اُن کے شانے سے، سر لگا کے خلش
ہم کو رونا سُجائی دیتا ہے
دُور ایسا کیا ہے قسمت نے!
کب یہ مُمکن دِکھائی دیتا ہے
شفیق خلش
مدیر کی آخری تدوین: