طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
کیا تم سے کہیں چُپ رہنے دو
جو چاہیں کہیں وہ ، کہنے دو
دیوانہ سمجھ کر رہنے دو
اے چارہ گرو دُکھ سہنے دو
دن بھر تو رہے آنسو روکے
خلوت میں لڑی تو بہنے دو
سُونی سی لگے دُنیا دل کی
کچھ اور غموں کے گہنے دو
ہاں درد کے سارے زیور وہ
اب تک جو نہیں ہیں پہنے دو
دیوانگی اُن کی ثابت ہے
کہتے ہیں خلش جو کہنے دو
شفیق خلش
شفیق خلش
کیا تم سے کہیں چُپ رہنے دو
جو چاہیں کہیں وہ ، کہنے دو
دیوانہ سمجھ کر رہنے دو
اے چارہ گرو دُکھ سہنے دو
دن بھر تو رہے آنسو روکے
خلوت میں لڑی تو بہنے دو
سُونی سی لگے دُنیا دل کی
کچھ اور غموں کے گہنے دو
ہاں درد کے سارے زیور وہ
اب تک جو نہیں ہیں پہنے دو
دیوانگی اُن کی ثابت ہے
کہتے ہیں خلش جو کہنے دو
شفیق خلش