شفیق خَلِش " کچھ پیار محبت کے صدموں، کچھ زہر بھرے پیمانوں سے "

طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خَلِش
کچھ پیار محبت کے صدموں، کچھ زہر بھرے پیمانوں سے
جو ہوش گنوائے پھرتے ہیں، کچھ کم تو نہیں دیوانوں سے
اِس حالت پر افسوس نہیں، یہ راہِ دل کا حاصل ہے
وہ عالم دل کو راس تھا کب، نفرت ہی رہی ایوانوں سے
وہ داغ کہ اُن کی چاہت میں، اِس دامن دل پر آئے ہیں
شل رکھا اپنا دستِ طلب اور خوف رہے ارمانوں سے
عادت سے ہماری شیخ تو ہے، سب رند کہاں نا قواقف ہیں
ہم دُور رہے ہیں مسجد سے، کب دُور رہے میخانوں سے
ہر شمع کی یہ فطرت ٹہری، محفل میں بُلا کر جاں لینا
مرنے کا نہیں افسوس خلش، نِسبت تو رہی پروانوں سے
شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
بھائی نا قواقف کی سمجھ نہی آئی
احمد علی صاحب !
میرے ذہن محدود کے مطابق :

شیخ (امام، زاہد،) عادت( اطوار)، سے نا واقف کہ مسجد (صحبت، یا جہاں وہ پایا جاتا ہے) سے دور رہا ، لیکن رند (مست ، جنوں آشنا، یا بادہ خور )، کب نا واقف ہیں
کہ ان سے دورد نہیں یا ان میں وقت گزرتا ہے

یہ یا یوں، میرا خال ہے! ہو سکتا ہے کہ کوئی خفی پہلو ہو، جو مجھے سمجھ یا نظر نہ آیا ہو

بہت خوش رہیں
 

طارق شاہ

محفلین
مکرمی پپو صاحب!
مفہومِ شعر کے استفسار پر آپ کی فصیح جوابی کا ممنوں ہوں، کچھ یہی بات میرے فہم میں بھی، اس کے مطالع سے تھا
انتخاب کی پذیرائی کے لئے بھی تشکّر
بہت خوشی ہوئی جو انتخاب آپ کو پسند آیا

بہت خوش رہیں
 
Top