الف عین
لائبریرین
کل رات وصول ہوئی حسن فرخ صاحب کی ایمیل کے مطابق
اردو کے حلقوں میں یہ خبر افسوس اور غم سے سنی جاے گی کہ نامور شاعر شفیق فاطمہ شعریٰ کا کل ۱۳ اگست کو حیدرآباد میں انتقال ہوگیا اور ان کی تدفین بھی کل ہی عمل میں آگئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ شعریٰ اپنے موضوعات اور گہرائی و گیرائی کے سبب ایک منفرد اور اہم مقام رکھتی تھیں۔ وہ قاضی سلیم، بشر نواز، وحید اختر،انورمعظم کی ہم عصر تھیں۔وہ ۱۷ مئی ۱۹۳۰ میں سہارن پور اتر پردیش میں پیدا ہوئیں۔وہاں سے وہ اپنے خاندان کے سا تھ ناگپور منتقل ہو گئیں۔شعریٰ نے فارسی اپنی ماں سے اور عربی ایک مولوی صاحب سے سیکھی۔ان کے والدجناب سید شمشاد علی ایم اے تاریخ کی سند رکحتے تحے مگر وہ اپنی لڑکی کو اسکول بحیجنے کے خلاف تھے ۔ان کا ایقان تھا کہ اس سے تخلیقی صلاحیت تباہ ہوجاتی ہے۔تقسیم ہند کے بعد ان کے خاندین نے عصری تعلیم کے ھصول کا فیصلہ کیا ۔شعریٰ نے اورنگ آباد میں ایم اے اردو کی سند حاصل کی وہ ہندی ،مراٹھی،اور دکنی پر بھی عبور رکھتی تھیں۔ قرآن فہمی نے ان کےکلام میں گہراِئی پیدا کی ان کے دو مجموعے شایع ہوئے۔ انھیں شعری خدمات پر غالب ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ ان کی تین لڑکیاں ہیں۔