چوہدری لیاقت علی
محفلین
اردو کا شاہکار ناول —کئی چاند تھے سر آسماں
از
احمد محفوظ
اردو کے معروف ادیب اسلم فرخی نے اپنے ایک مکتوب مورخہ19 ستمبر 2006مطبوعہ خبرنامہ شب خون نمبر2میں لکھا ہےک”کئی چاند تھے سر آسماں“نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑدیے۔ میرے ہمسائے میں ایک ایسے صاحب رہتے ہیں جو مالیات کے بڑے ماہر ہیں اور بڑے مصروف انسان ہیں مگر میں نے یہ دیکھا کہ انھوں نے ”کئی چاند تھے سر آسماں“کے ابتدائی بیس صفحے پڑھنے کے بعد اس کتاب کو اس طرح پڑھا کہ ہر چیز سے بے نیاز و بیگانہ ہو گئے۔ ایک اور صاحب نے جو ہمارے ملک کے بڑے سائنس داں ہیں مجھ سے یہ کہا کہ میری بیوی نے مجھے اس کتاب میں غرق دیکھ کر یہ پوچھا کہ آج تک تم نے کوئی کتاب اس انہماک سے نہیں پڑھی،اب تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی اس کتاب کے کچھ صفحے پڑھ لیتا ہے وہ پھر دنیا و ما فیہا سے غافل ہو کر اس کے مطالعے میں غرق ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ”کئی چاند تھے سر آسماں“ اکیسویں صدی ہی کی نہیں، اردو فکشن کی بہترین کتاب ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کے بارے میں اوپر جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ کسی مبالغے پر مبنی نہیں ہیں بلکہ حقیقی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس ناول کی مقبولیت کی اور بھی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر آگے آئے گا۔
اس ناول پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ غیر معمولی تخلیقی کارنامہ یوں ہی اچانک وجود میں نہیں آ گیا، بلکہ اس کے پیچھے وہ مقاصد اور منصوبے کار فرما رہے ہیں جن کا اظہار شمس الرحمن فاروقی کی دیگر تصانیف میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ ابھی کچھ برس پہلے ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”سوار اور دوسرے افسانے“منظر عام پر آیا تو اس کی بھی غیر معمولی شہرت اور پذیرائی ہوئی، ساتھہی ادبی دنیا میں اس بات کا چرچا بھی دیر تک ہوتار ہا کہ ان افسانوں کی تعمیر جن بنیادوں پر ہوئی ہے اور اس کا جو نقشہ سامنے آیا ہے، اس کی کوئی مثال اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ان افسانوں میں اردو کے مشاہیر شعرا مثلاً میر تقی میر، مرزا غالب اور غلام ہمدانی مصحفی وغیرہ کو مرکز میں رکھ کر اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان کی ادبی اور تہذیبی صورت حال کو ایسی غیر معمولی مہارت اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ اس عہد کے ادبی و تہذیبی مراکز بالخصوص دہلی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے متشکل ہو جاتی ہے۔ ہم شدت سے محسوس کرنے لگتے ہیں کہ آج کا عہد جس ادبی روایت کا امین اور پاسدار ہے، اس کی حقیقی شکل و صورت کتنی دلکش اور تابناک تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے اس شکل و صورت کا جو بھی احساس تھا وہ نہایت دھندلا اور اس قدر غیر واضح تھا کہ کچھ بھی صاف سمجھ میںنہ آتا تھا۔ لہٰذا اپنی روایت کے بارے میں اب تک ہمارے جو بھی احساسات تھے وہ نادیدہ یا کم دیدہ نقوش ہی کے مرہون منت تھے۔
یہاں بر سبیل تذکرہ اس بات کی طرف اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنی تہذیب اور ادب کے بارے میں منفی اور گمراہ کن خیالات و رجحانات کے پھیلنے یا پھیلائے جانے کا کام انیسویں صدی کے اواخر اور اس کے بعد اتنی تیزی کے ساتھ انجام پذیر ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہماری قدیم ادبی و تہذیبی روایت پر خط تنسیخ کھینچ دیا گیا اور اس طرح وہ تہذیبی انقطاع عمل میں آیا جس کے دور رس نتائج سے ہم اتنے عرصے بعد آج بھی دو چار ہیں۔ شروع ہی میں نہیں بلکہ بیسویں صدی کے ایک طویل عرصے تک اس انقطاع کو اچھی طرح محسوس نہیں کیا گیا، اور اگر کہیں کچھ احساس ہوا بھی تو اس پر صرف رنج و افسوس کر لینا ہی کافی سمجھا گیا۔ اس سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ تنہا شخص ہیں جنھوں نے اس ادبی و تہذیبی انقطاع کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا بلکہ اس کے اسباب و عوامل اور مضمرات پر پہلی بار نہایت شرح و بسط کے ساتھ کلام کیا۔ یہی نہیں، انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس انقطاع کے اثرات کو ختم کر کے اپنی قدیم ادبی و تہذیبی روایت سے رشتہ قائم اور مستحکم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ چنانچہ کلاسیکی تہذیب اور شعریات کے حوالے سے خدائے سخن میر تقی میر پر عہد ساز کتاب ”شعر شور انگیز“ ہو یا مذکورہ افسانے ہوں، سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اب جب کہ یہ ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں“اشاعت پذیر ہوا ہے تو اسے بھی شمس الرحمن فاروقی کے اس بڑے منصوبے کا اہم حصہ سمجھنا چاہیے، جس کے تحت وہ پچھلے کئی برسوں سے اپنی قدیم روایت کی بازیافت کا کام انجام دے رہے ہیں۔ایک معنی میں دیکھا جائے تو فاروقی کے مذکورہ بالا افسانوں کو اس ناول کی تمہید یا نقش اول بھی کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ موضوع، طرز بیان اور زبان کی نوعیت کے اعتبار سے ان افسانوں اور ناول میں بڑی یکسانیت نظر آتی ہے۔ البتہ افسانوں میں اختصار کے سبب جو کچھ، محض اشاروں میں اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہے، اسے ناول میں بہت پھیلا کر جزئیات کی پوری تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہاں اس بات سے یہ گمان نہ ہونا چاہیے کہ یہ ناول ان افسانوں کا تفصیلی بیان محض ہے۔ اسے مصنف کی تخلیقی ہنر مندی اور فنی مہارت کا واضح ثبوت ہی کہا جائے گا کہ اپنے وسیع معنوں میں موضوع اور زبان و بیان کی یکسانیت کے باوجود یہ ناول افسانوں سے نہ صرف مختلف تاثر پیش کرتا ہے بلکہ ہمیں یکسانیت کے احساس سے باز بھی رکھتا ہے۔اس میں صنفی اختلاف کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی دخل ہے کہ افسانوں کے بر خلاف ناول کے مرکز میں مصنف نے جس کردار کو قائم کیا ہے، وہ کسی مشہور اور بڑے کلاسیکی شاعر کا کردار نہیں،بلکہ ہماری تہذیبی تاریخ کی ایسی شخصیت ہے جسے دنیا وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کے نام سے جانتی ہے۔ انھیں وزیر خانم کو نواب مرزا داغ دہلوی کی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے۔ داغ دہلوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، اس کے سامنے دیکھا جائے تو وزیر خانم گمنام خاتون ہی کہی جائیں گی۔یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ وزیر خانم کے بارے میں ہماری ادبی تاریخ عام طور سے خاموش رہی ہے۔ اب اس نوال میں اٹھیں مرکزی کردار کی حیثیت سے جس طرح پیش کیا گیا ہے اور حقائق و واقعات کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں،وہ تاریخی طور پر خواہ پوری طرح مصدقہ نہ ہوں لیکن ان سے وزیر خانم کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں بہت کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی کے ساتھ وزیر خانم کی شخصیت کی روشنی میں اس عہد کے ذہن اور مزاج و مذاق کو بھی سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
کتابی صورت میں اشاعت سے پہلے اس ناول کے کچھ حصے رسائل میں بھی شائع ہوئے۔ رسائل میں ان حصوں کا چھپنا تھا کہ ہر طرف سے ناول کے بارے میں تحسین آمیز بیانات آنے شروع ہو گئے۔ان مطبوعہ حصوں سے لوگوں کو اتنا اندازہ تو ہو ہی گیا تھا کہ مکمل صورت میں ناول کے خدوخال کیا ہوں گے۔ چنانچہ تعریف و تحسین کے ساتھ کچھ ایسے خیالات بھی سامنے آئے جن سے یہ تاثر ملتا تھا کہ ناول اگرچہ غیر معمولی خوبیوں کا حامل ہے اور اپنی مثال آپ ہے لیکن یہ جس عہد کی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں کلام کرتا ہے، وہ اب ہمارے لیے کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس ناول میں جس طرح کی زبان استعمال ہوئی ہے، اب وہ متداول نہیں، اس لیے بڑی حد تک مشکل اور نا قابل فہم ٹھہرے گی۔یہاں اگر ہم غور کریں تو پہلی بات جو کہی گئی ہے، اس کی تہ میں اس تہذیبی انقطاع کے اثرات کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں جس کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔ اور زبان کے بارے میں جو بات کہی گئی ہے وہ ہمارے زمانے کے سہل پسند مزاج کی آئینہ داری کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
بہر حال یہ دونوں باتیں چونکہ حقیقت سے بہت دور تھیں، اس لیے ہم نے دیکھا کہ عملاً غلط ثابت ہوئیں۔آپ کہیں گے اس کا ثبوت کیا ہے؟ تو جواب میں اس مضمون کے آغاز میں منقولہ اقتباس ہی شاید کافی ہو، کیونکہ اس میں دونوں باتوں کا جواب موجود ہے۔لیکن مزید عرض ہے کہ اس ناول کا پہلا ایڈیشن جو پاکستان سے شائع ہوا، اس کی شہرت اور مقبولیت کا شور ابھی پوری طرح تھما بھی نہیں تھا کہ مشہور انگریزی پبلشر پینگوئن بکس نے اس کا ہندوستانی اردو ایڈیشن شائع کر دیا۔اتنے کم عرصے میں کسی اردو ناول کا نیا ایڈیشن منظر عام پر آنا، اس بات کی روشن دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ ناول بالکل نئے طرح کے موضوع اور خاص نوعیت کے زبان و بیان کا حامل ہونے کے باوجود اہل ذوق کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
جہاں تک ایک خاص عہد کی تاریخ و تہذیب کو موضوع بنانے کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ عہد ہمارے شعور و احساس کے کسی ان دیکھے گوشے میں اب بھی موجود ہے۔ ہم اپنے تہذیبی ماضی سے آج بھی اسی طرح وابستہ ہیں جس طرح ہمارے اسلاف اپنے تہذیبی ماضی سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ ایسا تسلسل ہے جو ہر عہد میں قائم رہتا ہے، خواہ خارجی سطح پر صورت حال کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو جائے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سوا سو برس گزر جانے کے بعد بھی ” آب حیات“کی شہرت، مقبولیت اور ادبی اہمیت میں ذرہ برابرکمی نہیں آئی ہے۔ محمد حسین آزاد نے اس کتاب میں ہمارے ادبی و تہذیبی ماضی کی جو تصویر کشی کی ہے وہ اس قدر زندہ اور متحرک ہے کہ ہم جب بھی اس پر نگاہ ڈالتے ہیں تو خود کو ایک نئی دنیا میں پاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کو ایک معنی میں ”جدید آب حیات“ بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ بات تو مبنی بر حقیقت ہے کہ اس ناول کی زبان آج کی زبان نہیں ہے، بلکہ اسے ماضی قریب کی زبان بھی نہیں کہہ سکتے۔اس اعتبار سے ناول میں مستعمل زبان کا وافر حصہ موجود ہ قاری کے لیے نامانوس ضرور ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نا مانوس زبان کا یہ استعمال ناول کی خامی یا نا کامی پر محمول نہیں ہو سکتا بلکہ اسے ناول کا تقاضا اور اس طرح اس کی بہت بڑی قوت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مصنف نے ناول میں بیانیہ کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے، اس کی رو سے زبان کا بڑا حصہ وہ ہو ہی نہیں سکتا جسے ہم آج استعمال کرتے ہیں۔یہاں بیانیہ کو اس طرح بروئے کار لایا گیا ہے کہ پورا ناول ایک سے زیادہ راویوں کے ذریعے بیان ہوا ہے۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا، ناول کا بڑا حصہ وزیر خانم کے کردار کے گرد گھومتا ہے۔ وزیر خانم کے والد محمد یوسف سادہ کار ناول کے پانچویں باب بعنوان ”تصویر“ کے آغاز سے بطور حاضر راوی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ سنہ عیسوی1840ہے اور اس وقت ان کی عمر 47 سال ہے۔ یہاں سے یوسف سادہ کار کا بیان ناول کے بیسویں باب تک جاری رہتا ہے، جب وزیر خانمAssistant Political Agentمارسٹن بلیک سے منسلک ہو کر جے پور چلی جاتی ہیں اس کے بعد کے واقعات غائب راوی کے ذریعے بیان ہوئے ہیں۔ بطور حاضرراوی یوسف سادہ کار اپنی سب سے چھوٹی بیٹی وزیر خانم کے ذکر سے پہلے اپنے خاندان اور اجداد کا حال بھی نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ یہ تفصیلات نہایت دلچسپ اور حد درجہ لائق توجہ ہیں۔ان کے بیان میں مصنف کی تخلیقی مہارت کا جو اظہار ہوا ہے، وہ قابل داد ہے۔ یوسف سادہ کار کی خاندانی تفصیلات کے بیان کا جواز بھی ناول کے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ یوسف سادہ کار کا بیان جہاں سے شروع ہوتا ہے، وہاں کی چند سطریں ملاحظہ ہوں
”میرا نام محمد یوسف سادہ کار ہے۔ میں کشمیر ی الاصل ہوں۔ لیکن اصل معاملہ میرا اتنا سادہ نہیں، اور شروع سے بیان کروں تو بہت لمبا اور پیچ در پیچ ہے۔ لیکن شروع سے بیان نہ کروں تو اس کی باریکیاںکسی کی سمجھ میں نہ آئیں گی۔
ظاہر ہے اس بیان سے ان تفصیلات کا جواز فراہم ہوجاتا ہے جو محمد یوسف سادہ کار کی زبانی ناول میں مذکور ہوئی ہیں۔ چونکہ یہ زمانہ وسط انیسویں صدی کا ہے اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں راوی بھی اسی زمانے کا ہے، لہٰذا یہ لازمی تھا کہ اس کے ذریعے جو کچھ بیان ہو، وہ اسی عہد کی زبان میں ہو۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول کا تقاضا ہی یہ تھا کہ اس میں زبان وہ استعمال ہو جو آج نہیں بلکہ انیسویں صدی میں یا اس سے پہلے مستعمل تھی۔ اس عہد کے ہندوستان بالخصوص دہلی کی ادبی و تہذیبی فضا پر زبان و بیان کا جو رنگ چھایا ہوا تھا اسے ہم آج اس ناول کے ذریعے اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔
ناول کے ابتدائی چار ابواب کا بیانیہ بھی خاص طور سے توجہ کے لائق ہے۔در اصل ان ابواب میں وزیر خانم اور مارسٹن بلیک اور ان سے متولد اولادوں اور ان کے اخلاف کا بیان ہے۔مارسٹن بلیک اور وزیر خانم سے دو اولادیں ہوئیں، ایک بیٹی سوفیہ عرف بادشاہ بیگم اور ایک بیٹا مارٹن بلیک عرف امیر مرزا۔ مارسٹن بلیک کی موت کے بعد وزیر خانم اپنی ان اولادوں سے محروم ہو گئیں اور یہ دونوں بچے مارسٹن بلیک ہی کے خاندان میں پلے بڑھے۔پھر انگلستان جا کر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان ابواب میں ان کی اولادوں کا بھی ذکر آیا ہے۔ ناول کے ایک کردار وسیم جعفر انھیں اولادوں میں سے ایک ہیں۔ ان تفصیلات کا بیان بھی حاضرراوی کے ذریعے ہوا ہے۔ لیکن یہاں حاضر راوی کوئی حقیقی کردار نہیں بلکہ ایک فرضی کردار کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ مصنف نے اس فرضی کردار کی تشکیل بڑے دلچسپ انداز میں کی ہے۔چنانچہ ناول کے پہلے باب بعنوان ”وزیر خانم“کے آغاز سے پہلے قوسین میں لکھا گیا ہے ”ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی، ماہر امراض چشم کی یادداشتوں سے ۔“یہی فقرہ دوسرے اور تیسرے باب کے آغاز میں بھی درج ہے اور چوتھے باب کے شروع میں ”ڈاکٹر وسیم جعفر کی تحریرات پر مبنی“لکھا ہوا ہے۔ ان ابواب میں بیان کردہ تفصیلات چونکہ تاریخی طور پر پوری طرح مصدقہ نہیں ہیں،اس لیے حاضرراوی کو بروے کار لاتے ہوئے بھی اسے فرضی کردار کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر وسیم جعفر کا کردار اس معنی میں حقیقی ہے کہ ان کا تعلق وزیر خانم کی اولادوں امیر مرزا اور بادشاہ بیگم کے خاندان سے ہے۔ البتہ ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی سے موسوم حاضرراوی قطعاًفرضی ہے۔ اس راوی کی تشکیل میں مصنف نے جدت طبع کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ راوی کے فرضی نام میں بھی ایک دلچسپ پہلو پنہاں ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے والد کا نام مولوی محمد خلیل الرحمن فاروقی اور دادا کا نام حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی ہے۔ اس طرح مصنف نے اپنے والد اور جد بزرگوار کے ناموں کو ملا کر فرضی نام کی تشکیل اس خوبصورتی سے کی ہے کہ یہ نام فرضی معلوم ہی نہیں ہوتا۔
چونکہ ان ابواب کے آغاز میں ہی کہہ دیا گیا ہے کہ آگے جو کچھ بیان ہوگا اس کی بنیاد محض یاد داشتوں پر ہے، لہٰذا اس کے معنی یہی ہیں کہ اگریہاں کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی تفصیل مبنی بر حقیقت نہ ٹھہرے یا تاریخی اعتبار سے غلط قرار پائے تو اس میں کوئی قباحت نہ ہوگی یا اسے قابل گرفت نہ سمجھا جائے ۔ کیونکہ اصلاً اور اولاً یہ سارا بیان ہے تو ناول کا حصہ، کسی تاریخ کی کتاب کا جزو نہیں۔ علاوہ ازیں پہلے باب کا اولین اقتباس ہی ان باتوں کی طرف اشارہ کر دیتا ہے۔
”وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم (پیدائش غالباً1811)محمد یوسف سادہ کار کی تیسری اور سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ ان کی پیدائش دہلی میں ہوئی۔ لیکن محمد یوسف سادہ کار دہلوی الاصل نہ تھے، کشمیری تھے۔ یہ لوگ دہلی کب اور کیونکر پہنچے، اور دہلی میں ان پر کیا گزری، یہ داستان لمبی ہے۔اس کی تفصیلات پہلے بھی کچھ بہت واضح نہ تھیں، اور اب تو تمادی ایام کے باعث اور کچھ دوسری مصلحتوں کے باعث شاید بالکل بھلا دی گئی ہیں۔ جو کچھ معلوم ہو سکا ہے، وہ حسب ذیل ہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ سب تاریخی طور پر بالکل درست ہو۔“
اس اقتباس کا آخری فقرہ نہایت اہم اور معنی خیز ہے۔ یعنی یہ اس بات کا واضح اشارہ اور اعلان ہے کہ آگے جو بھی واقعات بیان ہوں گے وہ اگرچہ غیر تاریخی تو نہ ہوں گے لیکن وہ سب ایسے بھی نہ ہوںگے جنھیں تاریخی طور پر بالکل درست سمجھا جانا ضروری ہو۔اس بیان سے اس بات کا جوازمزید مستحکم ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب تاریخ نہیں بلکہ فکشن ہے۔
میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ اس ناول کی سب سے بڑی خوبی اور قوت اس کے زبان و بیان اور جزئیات نگاری میں پوشیدہ ہے۔ ایک خاص عہد کی زبان کو دوبارہ زندہ کر کے اس طرح استعمال کرنا کہ واقعات بھی پوری طرح متشکل ہو جائیں اور بیانیہ کے اصول بھی مجروح نہ ہوں، نہایت مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس زبان کے روز مرہ اور محاورے کی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے اور آداب گفتگو وغیرہ کے تمام لوازم کا پورا پورا پاس و لحاظ بھی قائم رہے۔ ان تمام باتوں کے لیے مطالعہ و مشاہدہ اور مشق و مزاولت کی جس منزل تک رسائی درکار ہوتی ہے، فاروقی صاحب نہ صرف وہاں تک پہنچے ہیں بلکہ اس پر ان کا بھرپور تصرف بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ناول میں مستعمل زبان کے سلسلے میں انھوں نے کتاب کے آخر میں خود لکھا ہے کہ ”میں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ مکالموں میں،اور اگر بیانیہ کسی قدیم کردار کی زبانی، یا کسی قدیم کردار کے نقطہ ¿ نظر سے بیان کیا جا رہا ہے تو بیانیہ میں بھی، کوئی ایسا لفظ نہ آنے پائے جو اس زمانے میں مستعمل نہ تھا۔“ اس کے بعد وہ اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں ”ظاہر ہے کہ یہ بات لغات کی مددکے بغیر ممکن نہ تھی۔“در اصل یہ بیان اعتراف سے زیادہ انکسار مزاج کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔لغات کی کتابیں تو ہمیشہ سب کے لیے موجود ہوتی ہیں لیکن ان میں مندرج الفاظ کے خزانے کو کامیابی کے ساتھ وہی صرف میں لاتا ہے، جس کے مزاج کو اس سے مناسبت ہوتی ہے۔ اردو فارسی کی قدیم کلاسیکی روایت اور تہذیب سے فاروقی صاحب کے مزاج کی مناسبت اظہر من الشمس ہے۔ اس کا اظہار ان کی تحریر و تقریر سے عموماً ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انھوں نے ایک خاص عہد میں مروج الفاظ و محاورات کی تلاش و تفحص میں لغات سے مدد ضرور لی ہے لیکن انھیں بیانیہ کا جزوبنانے کا اہم ترین اور مشکل ترین مرحلہ ان کی افتاد طبع اور غیر معمولی قوت بیان ہی کے ذریعے سر ہوا ہے۔ قدیم عہد میں الفاظ کے مخصوص معنوں میں استعمال کی ایک مثال یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہوگی۔ وزیر خانم، نواب شمس الدین احمد خاں کے دولت کدے پر پہلی بار تشریف لاتی ہیں اور خواتین کے لیے مخصوص مہمان خانے میں قیام پذیر ہیں۔ رات کا وقت ہے۔نواب صاحب جب مہمان خانے میں داخل ہوتے ہیں تو کہتے ہیں”شب بخیر، وزیر خانم“۔ یہاں ”شب بخیر“کا فقرہ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوا ہے جن معنوں میں آج یہ مروج ہے۔ چنانچہ حاشیے میں یہ وضاحت درج ہے
”پرانے زمانے میں شام یا رات کو ملاقات کے وقت ”شب بخیر“کہتے تھے، گویا یہ انگریزی Good Eveningکا مرادف تھا۔ آج یہ فقرہ اس وقت بولتے ہیں جب رات کے لیے رخصت ہو رہے ہوں، یعنی اب یہ فقرہ Good Nightکا مرادف ہو گیا ہے۔
یہاں اہم بات صرف یہ نہیں ہے کہ ”شب بخیر“کے فقرے کو مصنف نے قدیم معنی میں استعمال کیا ہے جس میں دلچسپ پہلو یہ بھی پنہاں ہے کہ اس فقرے کے موجودہ اور قدیم معنی ایک دوسرے کے متضاد ہیں، جیسا کہ حاشیے کی درج بالا عبارت سے ظاہر ہے، بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ فقرہ موقع اور محل سے بھی گہری مناسبت رکھتا ہے۔
ناول میں جگہ جگہ اردو اور فارسی اشعار کا استعمال ایک طرف جہاں بیانیہ کو نیا رنگ عطا کرتا ہے وہیں اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ ہماری قدیم ادبی تہذیب میں شعر سننے سنانے کا عام رواج تھا۔اسے آداب محفل اور طرز گفتگو وغیرہ میں غیر معمولی اہمیت حاصل تھی۔ موقع و محل کے لحاظ سے دلچسپ اور اعلیٰ درجے کے شعر سنانا شخصیت کی خوبی اور بڑائی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اور جواب میں بر محل شعر پڑھ دینامزید خوبی کی بات تھی۔ ناول میں یہ پہلو جس خوبصورتی اور چابکدستی کے ساتھ نمایاں ہوا ہے،اس کی دادنہ دینا بڑی نا انصافی ہوگی۔ مصنف نے کمال ہنر مندی کے ساتھ اشعار کو جا بجا عبارتوں اور مکالموں میں اس طرح کھپایا ہے کہ معلوم ہوتا ہے وہ اشعار انھیں موقعوں کے لیے کہے گئے تھے۔یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ بیان کے دوران ان اشعار کو الگ سے لاکر رکھا گیا ہے۔ یہاں بھی فاروقی صاحب کے مطالعے کی وسعت، اردو فارسی کی شعری روایت پر گہری نظر اور ان کا علمی استحضار پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جہاں جہاں فارسی اشعار لائے گئے ہیں وہاں ان کا اردو ترجمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے ناول کی خامی پر محمول کریں۔لیکن اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ یہاں فارسی اشعار بیانیہ کا جزوبنا کرلائے گئے ہیں، اس لیے ان کا ترجمہ بیانیہ کے بے ساختہ پن کو ضرور مجروح کر دیتا۔یہاں اشعار کے استعمال کی کچھ مثالیں پیش کر دینا شاید نا مناسب نہ ہوگا۔
محمد یحییٰ بڈگامی کی نیک سیرت بیوی اور داﺅد و یعقوب کی ماں بشیر النسا نے شوہر کے انتقال کے چند ہی مہینے بعد داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی وفات کے ذکر کے فوراً بعد یہ بر محل شعر درج ہے
از موت و حیات چند پرسی آخر
خورشید بہ روز نے در افتاد و برفت
(ترجمہ: زندگی اور موت کے بارے میں کیا پوچھتے ہو۔بس یہ سمجھو کہ دھوپ روزن سے اندر آئی اور گزر گئی)
ایک موقع پر نواب شمس الدین احمد وزیر خانم کے یہاں تشریف فرما ہیں۔ نواب موصوف اور وزیر خانم کے درمیان لطف کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ملحوظ رہے کہ مارسٹن بلیک کی موت کے بعد وزیر خانم ابھی نواب موصوف سے باقاعدہ منسلک نہیں ہوئی ہیں۔ البتہ دونوں طرف سے وفور شوق اور شدید چاہت کا کچھ نہ کچھ اظہار ہونے لگا ہے۔ اس وقت نواب شمس الدین اور وزیر خانم کے بیچ جو مکالمہ ہو رہا ہے اس کا کچھ حصہ ملاحظہ کریں۔ نواب صاحب وزیر خانم کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
”تم نے پورے مہتاب کی طرح اس گھر کو روشن کر رکھا ہے اندھا ہی ہو جو تمھاری خوبیاں نہ دیکھ پائے۔ ہمارا بس چلے تو تمھیں چادر مہتاب کی طرح اوڑھ کر سو جائیں۔“
”سرکار نے مجھے چاند کہا، میری توقیر کی۔ لیکن عالی جاہ تو شمس ریاست اور مہر امارت ہیں، سورج کے آگے چاند کی کچھ حیثیت نہیں۔ عالی جاہ نے ضرور سنا ہوگا، نور القمر مستفید من الشمس۔ سورج اپنی منزل میں چلا جائے گا اور چادر مہتاب لپٹی لپیٹی دھری رہ جائے گی۔“
”بھئی واللہ۔ آپ کے فقرے کیا ہیں، فقرہ بازیاں ہیں۔ کہیں ان فقروں میں آپ ہمیں اڑا ہی نہ دیں۔“نواب نے ہنس کر کہا۔
”سرکار ہم تو خود پرِ کاہ ہیں، حضور کی نسیم شفقت کے منتظر ہیں کہ ہمیں اڑا لے جائے اور آسودہ ¿ منزل کر دے۔“
”اور منزل کہاں ہے آپ کی، یہ تو بتایا نہیں آپ نے۔“
”پرکاہ کی منزل کیا، تروتازہ ہو تو گلدستہ، خشک اور خزاں رسیدہ ہو تو گلخن۔“
”لیکن آپ نہ پرکاہ ہیں نہ خزاں رسیدہ۔ ابھی تو آپ پر ٹھیک سے بہار آئی ہی نہیں۔“وزیر نے مسکرا کر سر جھکا لیا اور طالب آملی کا شعر پڑھا
ز غارت چمنت بر بہار منت ہاست
کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند
(ترجمہ: تیرا چمن کو غارت کرنا بہار پر بے شمار احسانات کا سبب ٹھہرا ہے۔ کیونکہ پھول تیرے ہاتھ میں آ کر شاخ پر سے زیادہ تازہ ہو جاتا ہے۔)
اس شعر کے بر محل اور برجستہ استعمال سے قطع نظر مکالموں کی بے ساختگی اور ان میں رعایتوں اور مناسبتوں کی خوبصورت کارفرمائی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ درج بالا دونوں فارسی اشعار کا ترجمہ خود راقم الحروف نے کیا ہے۔
ناول میں کرداروں کی تعداد خاصی ہے۔ اور تقریباًتمام اہم کرداروں کا ربط براہِ راست یا بالواسطہ وزیر خانم سے ہے جن کی حیثیت ناول میں مرکزی کردار کی ہے۔ ناول کے اہم کرداروں میں مارسٹن بلیک، ولیم فریزر، نواب شمس الدین احمد خاں، محمد یحییٰ بڈگامی، میاں مخصوص اللہ، مرزا غالب، عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم، محمد یوسف سادہ کار، نواب مرزا داغ،ولی عہد سوئم میرزافخرو بہادر وغیرہ ہیں۔ مصنف نے تمام کرداروں کو ان کے مقام و مرتبہ اور شخصی خصوصیات کے پورے التزام کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وزیر خانم کو ناول میں چار اشخاص کے ساتھ یکے بعد دیگرے وابستہ دکھایا گیا ہے۔ ان میں مارسٹن بلیک اور نواب شمس الدین احمد خاں کے ساتھ وہ بغیر نکاح وابستہ رہیں اور آغا مرزا تراب علی اور میرزا فخرو بہادر ولی عہد سوئم سے ان کا مناکحت کا رشتہ رہا۔ ان چاروں افراد کے بیان اور ان کے کردار کی خصوصیات کی تفصیل میں مصنف نے کمال ہنر مندی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں مارسٹن بلیک اور نواب شمس الدین احمد سے وزیر خانم کی وابستگی کے زمانے کو خاص اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ اول تو وزیر خانم نے ان کے ساتھ نسبتاً زیادہ طویل عرصہ گزارا، دوسرے یہ کہ ان رشتوں کی تہ میں فریقین کی طرف سے جذباتی شدت اور دل کے معاملے کو بھی خاصا دخل تھا۔
یہ ناول اوپری سطح پر محبت کی ایسی داستان ہے جس میں کامیابی اور نا کامی و محرومی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ لیکن اس کی تہ میں ایسی حقیقتیں بھی پوشیدہ ہیں جو انیسویں صدی کے ہندوستان کی تاریخی، سیاسی اور تہذیبی صورت حال کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ اس زمانے میں ہندوستانیوں کے تئیں انگریزوں کا رویہ کیا تھا اور انگریز حکام اپنی طاقت کو روز بروز مزید مستحکم کرنے کے لیے کیا کیا حکمت عملی اختیار کر رہے تھے، اس کی طرف بھی بہت سے اشارے ناول میں موجود ہیں۔ولیم فریزر کا قتل ناول کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان خاص کر دہلی کی معاشرتی اور سیاسی صورت حال پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس کا اندازہ بھی ناول سے ہوتا ہے۔
مختلف علوم و فنون کا بیان ان کی مکمل تفصیلات اور تمام باریکیوں کے ساتھ ناول کے صفحات پر دیکھا جا سکتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مصنف کی معلومات اور مشاہدات کی وسعت کہاں تک ہے۔ عام اور معمولی چیزوں کے بارے میں بھی یہاں جس تفصیل سے کام لیا گیا ہے وہ بلا شبہ دیدنی ہے۔بنی ٹھنی کی تصویر کا بیان ہو،کشمیر کے مختلف مقامات کا ذکر ہو، گھریلو ساز و سامان، کھانا پینا، لباس و پوشاک، عادات و اطوار، ان تمام کے بارے میں حد درجہ باریک بینی سے کام لے کر انھیں ہمارے سامنے آئینہ کر دیا گیا ہے۔ بنی ٹھنی کی تصویر کے بیان میں مصنف نے غیر معمولی باریک بینی کا ثبوت پیش کیا ہے
”کاسنی رنگ کی کامدار ساری، پلو سے سر ڈھکا ہوا، لیکن ساری اس قدر باریک تھی کہ سر کا ایک ایک بال،مانگ میں چنی ہوئی افشاں کے ذرے، ماتھے کے جھومر میں جڑے ہوئے یاقوت، ہیرے، گومید اور تامڑے صاف جھلکتے تھے۔ کھلتا ہوا گندمی رنگ، منھ پر بہت ہلکی سی مسکراہٹ کی شفق، اور مصور اس قدر مشاق تھا کہ مسکراہٹ کی وجہ سے کانوں کی لوﺅں کی سرخی اور خفیف سا کھنچاﺅ تک دکھائی دیتا تھا، بلکہ محسوس ہوتا تھا۔ بڑی بڑی جامنی آنکھیں، پتلیوں کی سیاہی میں نیلگونی جھلکتی ہوئی، سیدھی ناک، بظاہر ذرا لمبی لیکن دوبارہ دیکھیں تو بالکل مناسب معلوم ہو، ناک میں بڑا سا بلاق جس میں ایک سرمئی موتی۔ گردن اونچی اور نازک، نخوت اور اعتماد کی بلندی اس میں نمایاں تھی۔گردن میں گول ترشے ہوئے جامنیا کے دانوں کا ہار،جس میں جگہ جگہ کسی زردی مائل گلابی پتھر کے بڑے بڑے دانے کشمیری ناشپاتیوں کی شکل میں تراشے گئے تھے۔
ملحوظ رہے کہ یہاں میں نے تصویر کی جزئیات کا مکمل بیان نقل نہیں کیا ہے۔ درج بالا اقتباس سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنف کی چشم تخیل نے کس قدر باریک بینی سے کام لیا ہے اور قوت بیان نے تفصیلات کو کس خوبی اور دلکشی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
تاریخی اعتبار سے یہ ناول انیسویں صدی سے بھی بہت پہلے سے شروع ہو کر سال 1856میں ختم ہوتا ہے۔ اس پورے عرصے کا بیان ہمیں ایسی دنیا کی سیر کراتا ہے جو معاشرتی اور تہذیبی لحاظ سے بے حد معمور ہے۔ یہاں کی زندگی اور اس کی اقدار نہایت مستحکم اور توانا ہیں۔ ہر طرف زندگی کی چہل پہل اور تحرک نظر آتا ہے۔ یہ دنیا ایسی ہے جس پر کوئی بھی عہد فخر کر سکتا ہے۔ یہاں کی ادبی تہذیب بھی پوری تابناکی کے ساتھ جلوہ گر ہے اور دنیا کی دوسری بڑی تہذیبوں سے خود کو کم نہیں سمجھتی۔ لیکن پھر زمانے کی بساط الٹتی ہے اور سماں بدل جاتا ہے۔ناول کے پورے پس منظر میں اس کا عنوان ”کئی چاند تھے سر آسماں“ جو احمد مشتاق کے درج ذیل شعر سے ماخوذ ہے، اپنی معنی خیزی نمایاں کرتا ہے
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمھاری زلف سیاہ تھی
ناول کے خاتمے کے فوراً بعد قدیم انگریزی شاعر اور فکشن نگارOliver Goldsmith(1728-1774)کی مشہور نظم ”مسافر“ The Traveller (مطبوعہ 1764) کی تین سطریں (اردو ترجمہ) بطور اختتامیہ درج ہیں جو حسب ذیل ہیں:
میری جوانی کے دن در بدری میں گئے اور فکر الم میں
نہ تھمنے والے قدموں کے ساتھ کسی خیر گریز پا کے تعاقب پر مجبور
وہ جو اپنی جھلک دکھا دکھا کر میرا منھ چڑاتا رہتا ہے
ان سطور سے معنی و مفہوم کے جو پہلو نکلتے ہیں وہ درج بالا شعر اور عنوان ”کئی چاند تھے سر آسماں“سے گہری مطابقت رکھتے ہیں۔اور یہ سب مل کر ناول کے تناظر کو زمان و مکاں کے وسیع امکانات سے وابستہ کر دیتے ہیں۔اس طرح یہ ناول خارجی واقعات کا بیان محض نہ ہو کر ہمارے ادبی و تہذیبی حافظے کی علامت بھی بن جاتا ہے۔
بشکریہ سہ ماہی ’نئی کتاب‘(اپریل۔جون2007)نئی دہلی
از
احمد محفوظ
اردو کے معروف ادیب اسلم فرخی نے اپنے ایک مکتوب مورخہ19 ستمبر 2006مطبوعہ خبرنامہ شب خون نمبر2میں لکھا ہےک”کئی چاند تھے سر آسماں“نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑدیے۔ میرے ہمسائے میں ایک ایسے صاحب رہتے ہیں جو مالیات کے بڑے ماہر ہیں اور بڑے مصروف انسان ہیں مگر میں نے یہ دیکھا کہ انھوں نے ”کئی چاند تھے سر آسماں“کے ابتدائی بیس صفحے پڑھنے کے بعد اس کتاب کو اس طرح پڑھا کہ ہر چیز سے بے نیاز و بیگانہ ہو گئے۔ ایک اور صاحب نے جو ہمارے ملک کے بڑے سائنس داں ہیں مجھ سے یہ کہا کہ میری بیوی نے مجھے اس کتاب میں غرق دیکھ کر یہ پوچھا کہ آج تک تم نے کوئی کتاب اس انہماک سے نہیں پڑھی،اب تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی اس کتاب کے کچھ صفحے پڑھ لیتا ہے وہ پھر دنیا و ما فیہا سے غافل ہو کر اس کے مطالعے میں غرق ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ”کئی چاند تھے سر آسماں“ اکیسویں صدی ہی کی نہیں، اردو فکشن کی بہترین کتاب ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کے بارے میں اوپر جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ کسی مبالغے پر مبنی نہیں ہیں بلکہ حقیقی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس ناول کی مقبولیت کی اور بھی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر آگے آئے گا۔
اس ناول پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ غیر معمولی تخلیقی کارنامہ یوں ہی اچانک وجود میں نہیں آ گیا، بلکہ اس کے پیچھے وہ مقاصد اور منصوبے کار فرما رہے ہیں جن کا اظہار شمس الرحمن فاروقی کی دیگر تصانیف میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ ابھی کچھ برس پہلے ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”سوار اور دوسرے افسانے“منظر عام پر آیا تو اس کی بھی غیر معمولی شہرت اور پذیرائی ہوئی، ساتھہی ادبی دنیا میں اس بات کا چرچا بھی دیر تک ہوتار ہا کہ ان افسانوں کی تعمیر جن بنیادوں پر ہوئی ہے اور اس کا جو نقشہ سامنے آیا ہے، اس کی کوئی مثال اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ان افسانوں میں اردو کے مشاہیر شعرا مثلاً میر تقی میر، مرزا غالب اور غلام ہمدانی مصحفی وغیرہ کو مرکز میں رکھ کر اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان کی ادبی اور تہذیبی صورت حال کو ایسی غیر معمولی مہارت اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ اس عہد کے ادبی و تہذیبی مراکز بالخصوص دہلی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے متشکل ہو جاتی ہے۔ ہم شدت سے محسوس کرنے لگتے ہیں کہ آج کا عہد جس ادبی روایت کا امین اور پاسدار ہے، اس کی حقیقی شکل و صورت کتنی دلکش اور تابناک تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے اس شکل و صورت کا جو بھی احساس تھا وہ نہایت دھندلا اور اس قدر غیر واضح تھا کہ کچھ بھی صاف سمجھ میںنہ آتا تھا۔ لہٰذا اپنی روایت کے بارے میں اب تک ہمارے جو بھی احساسات تھے وہ نادیدہ یا کم دیدہ نقوش ہی کے مرہون منت تھے۔
یہاں بر سبیل تذکرہ اس بات کی طرف اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنی تہذیب اور ادب کے بارے میں منفی اور گمراہ کن خیالات و رجحانات کے پھیلنے یا پھیلائے جانے کا کام انیسویں صدی کے اواخر اور اس کے بعد اتنی تیزی کے ساتھ انجام پذیر ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہماری قدیم ادبی و تہذیبی روایت پر خط تنسیخ کھینچ دیا گیا اور اس طرح وہ تہذیبی انقطاع عمل میں آیا جس کے دور رس نتائج سے ہم اتنے عرصے بعد آج بھی دو چار ہیں۔ شروع ہی میں نہیں بلکہ بیسویں صدی کے ایک طویل عرصے تک اس انقطاع کو اچھی طرح محسوس نہیں کیا گیا، اور اگر کہیں کچھ احساس ہوا بھی تو اس پر صرف رنج و افسوس کر لینا ہی کافی سمجھا گیا۔ اس سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ تنہا شخص ہیں جنھوں نے اس ادبی و تہذیبی انقطاع کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا بلکہ اس کے اسباب و عوامل اور مضمرات پر پہلی بار نہایت شرح و بسط کے ساتھ کلام کیا۔ یہی نہیں، انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس انقطاع کے اثرات کو ختم کر کے اپنی قدیم ادبی و تہذیبی روایت سے رشتہ قائم اور مستحکم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ چنانچہ کلاسیکی تہذیب اور شعریات کے حوالے سے خدائے سخن میر تقی میر پر عہد ساز کتاب ”شعر شور انگیز“ ہو یا مذکورہ افسانے ہوں، سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اب جب کہ یہ ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں“اشاعت پذیر ہوا ہے تو اسے بھی شمس الرحمن فاروقی کے اس بڑے منصوبے کا اہم حصہ سمجھنا چاہیے، جس کے تحت وہ پچھلے کئی برسوں سے اپنی قدیم روایت کی بازیافت کا کام انجام دے رہے ہیں۔ایک معنی میں دیکھا جائے تو فاروقی کے مذکورہ بالا افسانوں کو اس ناول کی تمہید یا نقش اول بھی کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ موضوع، طرز بیان اور زبان کی نوعیت کے اعتبار سے ان افسانوں اور ناول میں بڑی یکسانیت نظر آتی ہے۔ البتہ افسانوں میں اختصار کے سبب جو کچھ، محض اشاروں میں اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہے، اسے ناول میں بہت پھیلا کر جزئیات کی پوری تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہاں اس بات سے یہ گمان نہ ہونا چاہیے کہ یہ ناول ان افسانوں کا تفصیلی بیان محض ہے۔ اسے مصنف کی تخلیقی ہنر مندی اور فنی مہارت کا واضح ثبوت ہی کہا جائے گا کہ اپنے وسیع معنوں میں موضوع اور زبان و بیان کی یکسانیت کے باوجود یہ ناول افسانوں سے نہ صرف مختلف تاثر پیش کرتا ہے بلکہ ہمیں یکسانیت کے احساس سے باز بھی رکھتا ہے۔اس میں صنفی اختلاف کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی دخل ہے کہ افسانوں کے بر خلاف ناول کے مرکز میں مصنف نے جس کردار کو قائم کیا ہے، وہ کسی مشہور اور بڑے کلاسیکی شاعر کا کردار نہیں،بلکہ ہماری تہذیبی تاریخ کی ایسی شخصیت ہے جسے دنیا وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کے نام سے جانتی ہے۔ انھیں وزیر خانم کو نواب مرزا داغ دہلوی کی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے۔ داغ دہلوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، اس کے سامنے دیکھا جائے تو وزیر خانم گمنام خاتون ہی کہی جائیں گی۔یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ وزیر خانم کے بارے میں ہماری ادبی تاریخ عام طور سے خاموش رہی ہے۔ اب اس نوال میں اٹھیں مرکزی کردار کی حیثیت سے جس طرح پیش کیا گیا ہے اور حقائق و واقعات کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں،وہ تاریخی طور پر خواہ پوری طرح مصدقہ نہ ہوں لیکن ان سے وزیر خانم کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں بہت کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی کے ساتھ وزیر خانم کی شخصیت کی روشنی میں اس عہد کے ذہن اور مزاج و مذاق کو بھی سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
کتابی صورت میں اشاعت سے پہلے اس ناول کے کچھ حصے رسائل میں بھی شائع ہوئے۔ رسائل میں ان حصوں کا چھپنا تھا کہ ہر طرف سے ناول کے بارے میں تحسین آمیز بیانات آنے شروع ہو گئے۔ان مطبوعہ حصوں سے لوگوں کو اتنا اندازہ تو ہو ہی گیا تھا کہ مکمل صورت میں ناول کے خدوخال کیا ہوں گے۔ چنانچہ تعریف و تحسین کے ساتھ کچھ ایسے خیالات بھی سامنے آئے جن سے یہ تاثر ملتا تھا کہ ناول اگرچہ غیر معمولی خوبیوں کا حامل ہے اور اپنی مثال آپ ہے لیکن یہ جس عہد کی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں کلام کرتا ہے، وہ اب ہمارے لیے کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس ناول میں جس طرح کی زبان استعمال ہوئی ہے، اب وہ متداول نہیں، اس لیے بڑی حد تک مشکل اور نا قابل فہم ٹھہرے گی۔یہاں اگر ہم غور کریں تو پہلی بات جو کہی گئی ہے، اس کی تہ میں اس تہذیبی انقطاع کے اثرات کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں جس کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔ اور زبان کے بارے میں جو بات کہی گئی ہے وہ ہمارے زمانے کے سہل پسند مزاج کی آئینہ داری کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
بہر حال یہ دونوں باتیں چونکہ حقیقت سے بہت دور تھیں، اس لیے ہم نے دیکھا کہ عملاً غلط ثابت ہوئیں۔آپ کہیں گے اس کا ثبوت کیا ہے؟ تو جواب میں اس مضمون کے آغاز میں منقولہ اقتباس ہی شاید کافی ہو، کیونکہ اس میں دونوں باتوں کا جواب موجود ہے۔لیکن مزید عرض ہے کہ اس ناول کا پہلا ایڈیشن جو پاکستان سے شائع ہوا، اس کی شہرت اور مقبولیت کا شور ابھی پوری طرح تھما بھی نہیں تھا کہ مشہور انگریزی پبلشر پینگوئن بکس نے اس کا ہندوستانی اردو ایڈیشن شائع کر دیا۔اتنے کم عرصے میں کسی اردو ناول کا نیا ایڈیشن منظر عام پر آنا، اس بات کی روشن دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ ناول بالکل نئے طرح کے موضوع اور خاص نوعیت کے زبان و بیان کا حامل ہونے کے باوجود اہل ذوق کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
جہاں تک ایک خاص عہد کی تاریخ و تہذیب کو موضوع بنانے کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ عہد ہمارے شعور و احساس کے کسی ان دیکھے گوشے میں اب بھی موجود ہے۔ ہم اپنے تہذیبی ماضی سے آج بھی اسی طرح وابستہ ہیں جس طرح ہمارے اسلاف اپنے تہذیبی ماضی سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ ایسا تسلسل ہے جو ہر عہد میں قائم رہتا ہے، خواہ خارجی سطح پر صورت حال کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو جائے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سوا سو برس گزر جانے کے بعد بھی ” آب حیات“کی شہرت، مقبولیت اور ادبی اہمیت میں ذرہ برابرکمی نہیں آئی ہے۔ محمد حسین آزاد نے اس کتاب میں ہمارے ادبی و تہذیبی ماضی کی جو تصویر کشی کی ہے وہ اس قدر زندہ اور متحرک ہے کہ ہم جب بھی اس پر نگاہ ڈالتے ہیں تو خود کو ایک نئی دنیا میں پاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کو ایک معنی میں ”جدید آب حیات“ بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ بات تو مبنی بر حقیقت ہے کہ اس ناول کی زبان آج کی زبان نہیں ہے، بلکہ اسے ماضی قریب کی زبان بھی نہیں کہہ سکتے۔اس اعتبار سے ناول میں مستعمل زبان کا وافر حصہ موجود ہ قاری کے لیے نامانوس ضرور ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نا مانوس زبان کا یہ استعمال ناول کی خامی یا نا کامی پر محمول نہیں ہو سکتا بلکہ اسے ناول کا تقاضا اور اس طرح اس کی بہت بڑی قوت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مصنف نے ناول میں بیانیہ کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے، اس کی رو سے زبان کا بڑا حصہ وہ ہو ہی نہیں سکتا جسے ہم آج استعمال کرتے ہیں۔یہاں بیانیہ کو اس طرح بروئے کار لایا گیا ہے کہ پورا ناول ایک سے زیادہ راویوں کے ذریعے بیان ہوا ہے۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا، ناول کا بڑا حصہ وزیر خانم کے کردار کے گرد گھومتا ہے۔ وزیر خانم کے والد محمد یوسف سادہ کار ناول کے پانچویں باب بعنوان ”تصویر“ کے آغاز سے بطور حاضر راوی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ سنہ عیسوی1840ہے اور اس وقت ان کی عمر 47 سال ہے۔ یہاں سے یوسف سادہ کار کا بیان ناول کے بیسویں باب تک جاری رہتا ہے، جب وزیر خانمAssistant Political Agentمارسٹن بلیک سے منسلک ہو کر جے پور چلی جاتی ہیں اس کے بعد کے واقعات غائب راوی کے ذریعے بیان ہوئے ہیں۔ بطور حاضرراوی یوسف سادہ کار اپنی سب سے چھوٹی بیٹی وزیر خانم کے ذکر سے پہلے اپنے خاندان اور اجداد کا حال بھی نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ یہ تفصیلات نہایت دلچسپ اور حد درجہ لائق توجہ ہیں۔ان کے بیان میں مصنف کی تخلیقی مہارت کا جو اظہار ہوا ہے، وہ قابل داد ہے۔ یوسف سادہ کار کی خاندانی تفصیلات کے بیان کا جواز بھی ناول کے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ یوسف سادہ کار کا بیان جہاں سے شروع ہوتا ہے، وہاں کی چند سطریں ملاحظہ ہوں
”میرا نام محمد یوسف سادہ کار ہے۔ میں کشمیر ی الاصل ہوں۔ لیکن اصل معاملہ میرا اتنا سادہ نہیں، اور شروع سے بیان کروں تو بہت لمبا اور پیچ در پیچ ہے۔ لیکن شروع سے بیان نہ کروں تو اس کی باریکیاںکسی کی سمجھ میں نہ آئیں گی۔
ظاہر ہے اس بیان سے ان تفصیلات کا جواز فراہم ہوجاتا ہے جو محمد یوسف سادہ کار کی زبانی ناول میں مذکور ہوئی ہیں۔ چونکہ یہ زمانہ وسط انیسویں صدی کا ہے اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں راوی بھی اسی زمانے کا ہے، لہٰذا یہ لازمی تھا کہ اس کے ذریعے جو کچھ بیان ہو، وہ اسی عہد کی زبان میں ہو۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول کا تقاضا ہی یہ تھا کہ اس میں زبان وہ استعمال ہو جو آج نہیں بلکہ انیسویں صدی میں یا اس سے پہلے مستعمل تھی۔ اس عہد کے ہندوستان بالخصوص دہلی کی ادبی و تہذیبی فضا پر زبان و بیان کا جو رنگ چھایا ہوا تھا اسے ہم آج اس ناول کے ذریعے اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔
ناول کے ابتدائی چار ابواب کا بیانیہ بھی خاص طور سے توجہ کے لائق ہے۔در اصل ان ابواب میں وزیر خانم اور مارسٹن بلیک اور ان سے متولد اولادوں اور ان کے اخلاف کا بیان ہے۔مارسٹن بلیک اور وزیر خانم سے دو اولادیں ہوئیں، ایک بیٹی سوفیہ عرف بادشاہ بیگم اور ایک بیٹا مارٹن بلیک عرف امیر مرزا۔ مارسٹن بلیک کی موت کے بعد وزیر خانم اپنی ان اولادوں سے محروم ہو گئیں اور یہ دونوں بچے مارسٹن بلیک ہی کے خاندان میں پلے بڑھے۔پھر انگلستان جا کر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان ابواب میں ان کی اولادوں کا بھی ذکر آیا ہے۔ ناول کے ایک کردار وسیم جعفر انھیں اولادوں میں سے ایک ہیں۔ ان تفصیلات کا بیان بھی حاضرراوی کے ذریعے ہوا ہے۔ لیکن یہاں حاضر راوی کوئی حقیقی کردار نہیں بلکہ ایک فرضی کردار کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ مصنف نے اس فرضی کردار کی تشکیل بڑے دلچسپ انداز میں کی ہے۔چنانچہ ناول کے پہلے باب بعنوان ”وزیر خانم“کے آغاز سے پہلے قوسین میں لکھا گیا ہے ”ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی، ماہر امراض چشم کی یادداشتوں سے ۔“یہی فقرہ دوسرے اور تیسرے باب کے آغاز میں بھی درج ہے اور چوتھے باب کے شروع میں ”ڈاکٹر وسیم جعفر کی تحریرات پر مبنی“لکھا ہوا ہے۔ ان ابواب میں بیان کردہ تفصیلات چونکہ تاریخی طور پر پوری طرح مصدقہ نہیں ہیں،اس لیے حاضرراوی کو بروے کار لاتے ہوئے بھی اسے فرضی کردار کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر وسیم جعفر کا کردار اس معنی میں حقیقی ہے کہ ان کا تعلق وزیر خانم کی اولادوں امیر مرزا اور بادشاہ بیگم کے خاندان سے ہے۔ البتہ ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی سے موسوم حاضرراوی قطعاًفرضی ہے۔ اس راوی کی تشکیل میں مصنف نے جدت طبع کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ راوی کے فرضی نام میں بھی ایک دلچسپ پہلو پنہاں ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے والد کا نام مولوی محمد خلیل الرحمن فاروقی اور دادا کا نام حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی ہے۔ اس طرح مصنف نے اپنے والد اور جد بزرگوار کے ناموں کو ملا کر فرضی نام کی تشکیل اس خوبصورتی سے کی ہے کہ یہ نام فرضی معلوم ہی نہیں ہوتا۔
چونکہ ان ابواب کے آغاز میں ہی کہہ دیا گیا ہے کہ آگے جو کچھ بیان ہوگا اس کی بنیاد محض یاد داشتوں پر ہے، لہٰذا اس کے معنی یہی ہیں کہ اگریہاں کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی تفصیل مبنی بر حقیقت نہ ٹھہرے یا تاریخی اعتبار سے غلط قرار پائے تو اس میں کوئی قباحت نہ ہوگی یا اسے قابل گرفت نہ سمجھا جائے ۔ کیونکہ اصلاً اور اولاً یہ سارا بیان ہے تو ناول کا حصہ، کسی تاریخ کی کتاب کا جزو نہیں۔ علاوہ ازیں پہلے باب کا اولین اقتباس ہی ان باتوں کی طرف اشارہ کر دیتا ہے۔
”وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم (پیدائش غالباً1811)محمد یوسف سادہ کار کی تیسری اور سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ ان کی پیدائش دہلی میں ہوئی۔ لیکن محمد یوسف سادہ کار دہلوی الاصل نہ تھے، کشمیری تھے۔ یہ لوگ دہلی کب اور کیونکر پہنچے، اور دہلی میں ان پر کیا گزری، یہ داستان لمبی ہے۔اس کی تفصیلات پہلے بھی کچھ بہت واضح نہ تھیں، اور اب تو تمادی ایام کے باعث اور کچھ دوسری مصلحتوں کے باعث شاید بالکل بھلا دی گئی ہیں۔ جو کچھ معلوم ہو سکا ہے، وہ حسب ذیل ہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ سب تاریخی طور پر بالکل درست ہو۔“
اس اقتباس کا آخری فقرہ نہایت اہم اور معنی خیز ہے۔ یعنی یہ اس بات کا واضح اشارہ اور اعلان ہے کہ آگے جو بھی واقعات بیان ہوں گے وہ اگرچہ غیر تاریخی تو نہ ہوں گے لیکن وہ سب ایسے بھی نہ ہوںگے جنھیں تاریخی طور پر بالکل درست سمجھا جانا ضروری ہو۔اس بیان سے اس بات کا جوازمزید مستحکم ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب تاریخ نہیں بلکہ فکشن ہے۔
میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ اس ناول کی سب سے بڑی خوبی اور قوت اس کے زبان و بیان اور جزئیات نگاری میں پوشیدہ ہے۔ ایک خاص عہد کی زبان کو دوبارہ زندہ کر کے اس طرح استعمال کرنا کہ واقعات بھی پوری طرح متشکل ہو جائیں اور بیانیہ کے اصول بھی مجروح نہ ہوں، نہایت مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس زبان کے روز مرہ اور محاورے کی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے اور آداب گفتگو وغیرہ کے تمام لوازم کا پورا پورا پاس و لحاظ بھی قائم رہے۔ ان تمام باتوں کے لیے مطالعہ و مشاہدہ اور مشق و مزاولت کی جس منزل تک رسائی درکار ہوتی ہے، فاروقی صاحب نہ صرف وہاں تک پہنچے ہیں بلکہ اس پر ان کا بھرپور تصرف بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ناول میں مستعمل زبان کے سلسلے میں انھوں نے کتاب کے آخر میں خود لکھا ہے کہ ”میں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ مکالموں میں،اور اگر بیانیہ کسی قدیم کردار کی زبانی، یا کسی قدیم کردار کے نقطہ ¿ نظر سے بیان کیا جا رہا ہے تو بیانیہ میں بھی، کوئی ایسا لفظ نہ آنے پائے جو اس زمانے میں مستعمل نہ تھا۔“ اس کے بعد وہ اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں ”ظاہر ہے کہ یہ بات لغات کی مددکے بغیر ممکن نہ تھی۔“در اصل یہ بیان اعتراف سے زیادہ انکسار مزاج کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔لغات کی کتابیں تو ہمیشہ سب کے لیے موجود ہوتی ہیں لیکن ان میں مندرج الفاظ کے خزانے کو کامیابی کے ساتھ وہی صرف میں لاتا ہے، جس کے مزاج کو اس سے مناسبت ہوتی ہے۔ اردو فارسی کی قدیم کلاسیکی روایت اور تہذیب سے فاروقی صاحب کے مزاج کی مناسبت اظہر من الشمس ہے۔ اس کا اظہار ان کی تحریر و تقریر سے عموماً ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انھوں نے ایک خاص عہد میں مروج الفاظ و محاورات کی تلاش و تفحص میں لغات سے مدد ضرور لی ہے لیکن انھیں بیانیہ کا جزوبنانے کا اہم ترین اور مشکل ترین مرحلہ ان کی افتاد طبع اور غیر معمولی قوت بیان ہی کے ذریعے سر ہوا ہے۔ قدیم عہد میں الفاظ کے مخصوص معنوں میں استعمال کی ایک مثال یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہوگی۔ وزیر خانم، نواب شمس الدین احمد خاں کے دولت کدے پر پہلی بار تشریف لاتی ہیں اور خواتین کے لیے مخصوص مہمان خانے میں قیام پذیر ہیں۔ رات کا وقت ہے۔نواب صاحب جب مہمان خانے میں داخل ہوتے ہیں تو کہتے ہیں”شب بخیر، وزیر خانم“۔ یہاں ”شب بخیر“کا فقرہ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوا ہے جن معنوں میں آج یہ مروج ہے۔ چنانچہ حاشیے میں یہ وضاحت درج ہے
”پرانے زمانے میں شام یا رات کو ملاقات کے وقت ”شب بخیر“کہتے تھے، گویا یہ انگریزی Good Eveningکا مرادف تھا۔ آج یہ فقرہ اس وقت بولتے ہیں جب رات کے لیے رخصت ہو رہے ہوں، یعنی اب یہ فقرہ Good Nightکا مرادف ہو گیا ہے۔
یہاں اہم بات صرف یہ نہیں ہے کہ ”شب بخیر“کے فقرے کو مصنف نے قدیم معنی میں استعمال کیا ہے جس میں دلچسپ پہلو یہ بھی پنہاں ہے کہ اس فقرے کے موجودہ اور قدیم معنی ایک دوسرے کے متضاد ہیں، جیسا کہ حاشیے کی درج بالا عبارت سے ظاہر ہے، بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ فقرہ موقع اور محل سے بھی گہری مناسبت رکھتا ہے۔
ناول میں جگہ جگہ اردو اور فارسی اشعار کا استعمال ایک طرف جہاں بیانیہ کو نیا رنگ عطا کرتا ہے وہیں اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ ہماری قدیم ادبی تہذیب میں شعر سننے سنانے کا عام رواج تھا۔اسے آداب محفل اور طرز گفتگو وغیرہ میں غیر معمولی اہمیت حاصل تھی۔ موقع و محل کے لحاظ سے دلچسپ اور اعلیٰ درجے کے شعر سنانا شخصیت کی خوبی اور بڑائی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اور جواب میں بر محل شعر پڑھ دینامزید خوبی کی بات تھی۔ ناول میں یہ پہلو جس خوبصورتی اور چابکدستی کے ساتھ نمایاں ہوا ہے،اس کی دادنہ دینا بڑی نا انصافی ہوگی۔ مصنف نے کمال ہنر مندی کے ساتھ اشعار کو جا بجا عبارتوں اور مکالموں میں اس طرح کھپایا ہے کہ معلوم ہوتا ہے وہ اشعار انھیں موقعوں کے لیے کہے گئے تھے۔یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ بیان کے دوران ان اشعار کو الگ سے لاکر رکھا گیا ہے۔ یہاں بھی فاروقی صاحب کے مطالعے کی وسعت، اردو فارسی کی شعری روایت پر گہری نظر اور ان کا علمی استحضار پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جہاں جہاں فارسی اشعار لائے گئے ہیں وہاں ان کا اردو ترجمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے ناول کی خامی پر محمول کریں۔لیکن اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ یہاں فارسی اشعار بیانیہ کا جزوبنا کرلائے گئے ہیں، اس لیے ان کا ترجمہ بیانیہ کے بے ساختہ پن کو ضرور مجروح کر دیتا۔یہاں اشعار کے استعمال کی کچھ مثالیں پیش کر دینا شاید نا مناسب نہ ہوگا۔
محمد یحییٰ بڈگامی کی نیک سیرت بیوی اور داﺅد و یعقوب کی ماں بشیر النسا نے شوہر کے انتقال کے چند ہی مہینے بعد داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی وفات کے ذکر کے فوراً بعد یہ بر محل شعر درج ہے
از موت و حیات چند پرسی آخر
خورشید بہ روز نے در افتاد و برفت
(ترجمہ: زندگی اور موت کے بارے میں کیا پوچھتے ہو۔بس یہ سمجھو کہ دھوپ روزن سے اندر آئی اور گزر گئی)
ایک موقع پر نواب شمس الدین احمد وزیر خانم کے یہاں تشریف فرما ہیں۔ نواب موصوف اور وزیر خانم کے درمیان لطف کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ملحوظ رہے کہ مارسٹن بلیک کی موت کے بعد وزیر خانم ابھی نواب موصوف سے باقاعدہ منسلک نہیں ہوئی ہیں۔ البتہ دونوں طرف سے وفور شوق اور شدید چاہت کا کچھ نہ کچھ اظہار ہونے لگا ہے۔ اس وقت نواب شمس الدین اور وزیر خانم کے بیچ جو مکالمہ ہو رہا ہے اس کا کچھ حصہ ملاحظہ کریں۔ نواب صاحب وزیر خانم کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
”تم نے پورے مہتاب کی طرح اس گھر کو روشن کر رکھا ہے اندھا ہی ہو جو تمھاری خوبیاں نہ دیکھ پائے۔ ہمارا بس چلے تو تمھیں چادر مہتاب کی طرح اوڑھ کر سو جائیں۔“
”سرکار نے مجھے چاند کہا، میری توقیر کی۔ لیکن عالی جاہ تو شمس ریاست اور مہر امارت ہیں، سورج کے آگے چاند کی کچھ حیثیت نہیں۔ عالی جاہ نے ضرور سنا ہوگا، نور القمر مستفید من الشمس۔ سورج اپنی منزل میں چلا جائے گا اور چادر مہتاب لپٹی لپیٹی دھری رہ جائے گی۔“
”بھئی واللہ۔ آپ کے فقرے کیا ہیں، فقرہ بازیاں ہیں۔ کہیں ان فقروں میں آپ ہمیں اڑا ہی نہ دیں۔“نواب نے ہنس کر کہا۔
”سرکار ہم تو خود پرِ کاہ ہیں، حضور کی نسیم شفقت کے منتظر ہیں کہ ہمیں اڑا لے جائے اور آسودہ ¿ منزل کر دے۔“
”اور منزل کہاں ہے آپ کی، یہ تو بتایا نہیں آپ نے۔“
”پرکاہ کی منزل کیا، تروتازہ ہو تو گلدستہ، خشک اور خزاں رسیدہ ہو تو گلخن۔“
”لیکن آپ نہ پرکاہ ہیں نہ خزاں رسیدہ۔ ابھی تو آپ پر ٹھیک سے بہار آئی ہی نہیں۔“وزیر نے مسکرا کر سر جھکا لیا اور طالب آملی کا شعر پڑھا
ز غارت چمنت بر بہار منت ہاست
کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند
(ترجمہ: تیرا چمن کو غارت کرنا بہار پر بے شمار احسانات کا سبب ٹھہرا ہے۔ کیونکہ پھول تیرے ہاتھ میں آ کر شاخ پر سے زیادہ تازہ ہو جاتا ہے۔)
اس شعر کے بر محل اور برجستہ استعمال سے قطع نظر مکالموں کی بے ساختگی اور ان میں رعایتوں اور مناسبتوں کی خوبصورت کارفرمائی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ درج بالا دونوں فارسی اشعار کا ترجمہ خود راقم الحروف نے کیا ہے۔
ناول میں کرداروں کی تعداد خاصی ہے۔ اور تقریباًتمام اہم کرداروں کا ربط براہِ راست یا بالواسطہ وزیر خانم سے ہے جن کی حیثیت ناول میں مرکزی کردار کی ہے۔ ناول کے اہم کرداروں میں مارسٹن بلیک، ولیم فریزر، نواب شمس الدین احمد خاں، محمد یحییٰ بڈگامی، میاں مخصوص اللہ، مرزا غالب، عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم، محمد یوسف سادہ کار، نواب مرزا داغ،ولی عہد سوئم میرزافخرو بہادر وغیرہ ہیں۔ مصنف نے تمام کرداروں کو ان کے مقام و مرتبہ اور شخصی خصوصیات کے پورے التزام کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وزیر خانم کو ناول میں چار اشخاص کے ساتھ یکے بعد دیگرے وابستہ دکھایا گیا ہے۔ ان میں مارسٹن بلیک اور نواب شمس الدین احمد خاں کے ساتھ وہ بغیر نکاح وابستہ رہیں اور آغا مرزا تراب علی اور میرزا فخرو بہادر ولی عہد سوئم سے ان کا مناکحت کا رشتہ رہا۔ ان چاروں افراد کے بیان اور ان کے کردار کی خصوصیات کی تفصیل میں مصنف نے کمال ہنر مندی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں مارسٹن بلیک اور نواب شمس الدین احمد سے وزیر خانم کی وابستگی کے زمانے کو خاص اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ اول تو وزیر خانم نے ان کے ساتھ نسبتاً زیادہ طویل عرصہ گزارا، دوسرے یہ کہ ان رشتوں کی تہ میں فریقین کی طرف سے جذباتی شدت اور دل کے معاملے کو بھی خاصا دخل تھا۔
یہ ناول اوپری سطح پر محبت کی ایسی داستان ہے جس میں کامیابی اور نا کامی و محرومی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ لیکن اس کی تہ میں ایسی حقیقتیں بھی پوشیدہ ہیں جو انیسویں صدی کے ہندوستان کی تاریخی، سیاسی اور تہذیبی صورت حال کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ اس زمانے میں ہندوستانیوں کے تئیں انگریزوں کا رویہ کیا تھا اور انگریز حکام اپنی طاقت کو روز بروز مزید مستحکم کرنے کے لیے کیا کیا حکمت عملی اختیار کر رہے تھے، اس کی طرف بھی بہت سے اشارے ناول میں موجود ہیں۔ولیم فریزر کا قتل ناول کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان خاص کر دہلی کی معاشرتی اور سیاسی صورت حال پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس کا اندازہ بھی ناول سے ہوتا ہے۔
مختلف علوم و فنون کا بیان ان کی مکمل تفصیلات اور تمام باریکیوں کے ساتھ ناول کے صفحات پر دیکھا جا سکتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مصنف کی معلومات اور مشاہدات کی وسعت کہاں تک ہے۔ عام اور معمولی چیزوں کے بارے میں بھی یہاں جس تفصیل سے کام لیا گیا ہے وہ بلا شبہ دیدنی ہے۔بنی ٹھنی کی تصویر کا بیان ہو،کشمیر کے مختلف مقامات کا ذکر ہو، گھریلو ساز و سامان، کھانا پینا، لباس و پوشاک، عادات و اطوار، ان تمام کے بارے میں حد درجہ باریک بینی سے کام لے کر انھیں ہمارے سامنے آئینہ کر دیا گیا ہے۔ بنی ٹھنی کی تصویر کے بیان میں مصنف نے غیر معمولی باریک بینی کا ثبوت پیش کیا ہے
”کاسنی رنگ کی کامدار ساری، پلو سے سر ڈھکا ہوا، لیکن ساری اس قدر باریک تھی کہ سر کا ایک ایک بال،مانگ میں چنی ہوئی افشاں کے ذرے، ماتھے کے جھومر میں جڑے ہوئے یاقوت، ہیرے، گومید اور تامڑے صاف جھلکتے تھے۔ کھلتا ہوا گندمی رنگ، منھ پر بہت ہلکی سی مسکراہٹ کی شفق، اور مصور اس قدر مشاق تھا کہ مسکراہٹ کی وجہ سے کانوں کی لوﺅں کی سرخی اور خفیف سا کھنچاﺅ تک دکھائی دیتا تھا، بلکہ محسوس ہوتا تھا۔ بڑی بڑی جامنی آنکھیں، پتلیوں کی سیاہی میں نیلگونی جھلکتی ہوئی، سیدھی ناک، بظاہر ذرا لمبی لیکن دوبارہ دیکھیں تو بالکل مناسب معلوم ہو، ناک میں بڑا سا بلاق جس میں ایک سرمئی موتی۔ گردن اونچی اور نازک، نخوت اور اعتماد کی بلندی اس میں نمایاں تھی۔گردن میں گول ترشے ہوئے جامنیا کے دانوں کا ہار،جس میں جگہ جگہ کسی زردی مائل گلابی پتھر کے بڑے بڑے دانے کشمیری ناشپاتیوں کی شکل میں تراشے گئے تھے۔
ملحوظ رہے کہ یہاں میں نے تصویر کی جزئیات کا مکمل بیان نقل نہیں کیا ہے۔ درج بالا اقتباس سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنف کی چشم تخیل نے کس قدر باریک بینی سے کام لیا ہے اور قوت بیان نے تفصیلات کو کس خوبی اور دلکشی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
تاریخی اعتبار سے یہ ناول انیسویں صدی سے بھی بہت پہلے سے شروع ہو کر سال 1856میں ختم ہوتا ہے۔ اس پورے عرصے کا بیان ہمیں ایسی دنیا کی سیر کراتا ہے جو معاشرتی اور تہذیبی لحاظ سے بے حد معمور ہے۔ یہاں کی زندگی اور اس کی اقدار نہایت مستحکم اور توانا ہیں۔ ہر طرف زندگی کی چہل پہل اور تحرک نظر آتا ہے۔ یہ دنیا ایسی ہے جس پر کوئی بھی عہد فخر کر سکتا ہے۔ یہاں کی ادبی تہذیب بھی پوری تابناکی کے ساتھ جلوہ گر ہے اور دنیا کی دوسری بڑی تہذیبوں سے خود کو کم نہیں سمجھتی۔ لیکن پھر زمانے کی بساط الٹتی ہے اور سماں بدل جاتا ہے۔ناول کے پورے پس منظر میں اس کا عنوان ”کئی چاند تھے سر آسماں“ جو احمد مشتاق کے درج ذیل شعر سے ماخوذ ہے، اپنی معنی خیزی نمایاں کرتا ہے
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمھاری زلف سیاہ تھی
ناول کے خاتمے کے فوراً بعد قدیم انگریزی شاعر اور فکشن نگارOliver Goldsmith(1728-1774)کی مشہور نظم ”مسافر“ The Traveller (مطبوعہ 1764) کی تین سطریں (اردو ترجمہ) بطور اختتامیہ درج ہیں جو حسب ذیل ہیں:
میری جوانی کے دن در بدری میں گئے اور فکر الم میں
نہ تھمنے والے قدموں کے ساتھ کسی خیر گریز پا کے تعاقب پر مجبور
وہ جو اپنی جھلک دکھا دکھا کر میرا منھ چڑاتا رہتا ہے
ان سطور سے معنی و مفہوم کے جو پہلو نکلتے ہیں وہ درج بالا شعر اور عنوان ”کئی چاند تھے سر آسماں“سے گہری مطابقت رکھتے ہیں۔اور یہ سب مل کر ناول کے تناظر کو زمان و مکاں کے وسیع امکانات سے وابستہ کر دیتے ہیں۔اس طرح یہ ناول خارجی واقعات کا بیان محض نہ ہو کر ہمارے ادبی و تہذیبی حافظے کی علامت بھی بن جاتا ہے۔
بشکریہ سہ ماہی ’نئی کتاب‘(اپریل۔جون2007)نئی دہلی