سید شہزاد ناصر
محفلین
علامہ سر محمد اقبال کی نظم شمع اور شاعر کے یہ اشعار مجھے بہت پسند ہیں
شاعر
دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش
گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ اے
از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی
کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی
شمع
مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل
لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا
گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثل چراغ لالۂ صحرا ترا
سوچ تو دل میں ، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا!
اور ہے تیرا شعار ، آئین ملت اور ہے
زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے لیلا ترا
اے در تابندہ ، اے پروردۂ آغوش موج!
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
اب نوا پیرا ہے کیا ، گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا
تھا جنھیں ذوق تماشا ، وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
آہ ، جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
پھول بے پروا ہیں ، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو یا نہ ہو
شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے
رشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
شوق بے پروا گیا ، فکر فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے
خیر ، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا