فیض شورشِ زنجیر بسم اللہ - فیض

محمد وارث

لائبریرین
شورشِ زنجیر بسم اللہ
(فیض احمد فیض)


ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرام دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جنوں والے
دریدہ دامنوں والے، پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ

گِنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شبگیر بسم اللہ

ستم کی داستاں، کشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیرِ لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصر ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گفتہ پر اب تعزیر بسم اللہ

سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ


لاہور جیل
جنوری 1959ء
۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت بہت شکریہ وارث صاحب۔ انتہائی عمدہ انتخاب ہے۔
اس نظم کی خاص بات اس کی ردیف میں "بسم اللہ" کا خاص پنجابی انداز میں بطور "خوش آمدید" استعمال ہے۔ اور ابھی چند روز قبل ہی مَیں اس نظم کی تلاش میں نسخہ ہائے وفا کی ورق گردانی کر رہا تھا لیکن نہیں ملی اور آج آپ نے بھیج دی۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔:)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ آپ کا فاتح صاحب۔

واقعی مجھے بھی "بسم اللہ" کا استعمال اور انداز بھایا تھا اس نظم میں۔

مزید "راہ" کی بات یہ ہے کہ میں بھی پچھلے کچھ دنوں سے اسے پوسٹ کرنا چاہ رہا تھا لیکن بس موقع نہیں مل رہا تھا۔:)
 
بہت خوب، یقیننا بسم اللہ کا استعمال بہت عمدہ ہے

اور عجیب سی بات یہ کہ کل اسے پڑھتے ہوئے پوسٹ کرنے کا سوچا تھا-
 
Top