فرخ منظور
لائبریرین
شور قدموں کا پہنچ جاتا ہے دروازے تک
مجھ سے کچھ پہلے ہی وہ آتا ہے دروازے تک
یوں بھی ہوتا ہے کہ جب لمبے سفر پر نکلوں
ہر قدم پر کوئی سمجھاتا ہے دروازے تک
کھٹکھٹائے کوئی دروازہ اگر رات گئے
میرا دل صحن سے گھبراتا ہے دروازے تک
جانی پہچانی سی دستک میں کشش ہے کتنی
آدمی کھنچتا چلا آتا ہے دروازے تک
اہلِ خانہ سے جو ہوجاتی ہے رنجش پرویز
چھوڑنے کوئی نہیں آتا ہے دروازے تک
مجھ سے کچھ پہلے ہی وہ آتا ہے دروازے تک
یوں بھی ہوتا ہے کہ جب لمبے سفر پر نکلوں
ہر قدم پر کوئی سمجھاتا ہے دروازے تک
کھٹکھٹائے کوئی دروازہ اگر رات گئے
میرا دل صحن سے گھبراتا ہے دروازے تک
جانی پہچانی سی دستک میں کشش ہے کتنی
آدمی کھنچتا چلا آتا ہے دروازے تک
اہلِ خانہ سے جو ہوجاتی ہے رنجش پرویز
چھوڑنے کوئی نہیں آتا ہے دروازے تک