شوقِ سفر زمان میں تھا کہیں
پر راستہ مکان میں تھا کہیں
فاصلہ جو کبھی طے نہ ہوا
وہ ہمارے درمیان میں تھا کہیں
پتہ ڈھونڈتے رہےجہاں میں
وہ میرے سامان میں تھا کہیں
میری حدیں تھیں زمیں سے منسلک
رہتا وہ آسمان میں تھا کہیں
جو سچ جس پر سزا ہوئی مجھے
وہ اس کے بیان میں تھا کہیں
ظفر بسمل ہوا جس تیر سے وہ
اس کی کمان میں تھا کہیں
پر راستہ مکان میں تھا کہیں
فاصلہ جو کبھی طے نہ ہوا
وہ ہمارے درمیان میں تھا کہیں
پتہ ڈھونڈتے رہےجہاں میں
وہ میرے سامان میں تھا کہیں
میری حدیں تھیں زمیں سے منسلک
رہتا وہ آسمان میں تھا کہیں
جو سچ جس پر سزا ہوئی مجھے
وہ اس کے بیان میں تھا کہیں
ظفر بسمل ہوا جس تیر سے وہ
اس کی کمان میں تھا کہیں