سید زبیر
محفلین
شوکت تھانوی کی کتاب " کچھ یادیں کچھ باتیں "سے اقتباس
" میری زندگی کا آغاز ایک عجیب ہنگامہ سے ہوا بلکہ میں تو اسے ہنگامہ سے زیادہ شامت ہی کہوں گا ۔جس طرح شامت بغیر کسی اطلاع کے آجاتی ہے اسی طرح مجھ پر یہ سانحہ گذرا کہ میں بیٹھے بٹھائے شاعر بن گیا حالانکہ مجھ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ والد محترم میرا نالائق نکل جانا اور شاعر بن جانا یکساں قسم کی بات سمجھیں گے اس لیے کہ میں ایک چچا زاد بھائی کے متعلق ان کی اس رائے سے پوری طرح واقف تھا جو ان کے شاعر نکل جانے کے بعد والد محترم نے قائم کر رکھی تھی مگر ان بھائی جان کی شاعرانہ عظمت کا میں کچھ ایسا قائل تھا کہ خود اپنے کو بھی شاعر بنائے بغیر نہ رہ سکا شروع شروع میں تو شاعری کچھ ایسی 'پرائیویٹ پریکٹس ' کرتا رہا ۔جس میں چوری اور سینہ زوری دونوں کو دخل تھا کہ انہی بھائی جان کا کلام نقل کر کے اپنے دوستوں میں لے جاتا تھا اور ان کے تخلص کی جگہ اپنا تخلص فٹ کر کے ووستوں کو وہ کلام لہک لہک کر سناتا تھا ۔
اس سے قبل کہ میں کچھ اور عرض کروں میں چاہتا ہوں کہ میرے تخلص والی بات نہ رہ جائے کہ میں نے شوکت کیوں رکھا ۔بات یہ کہ جس زمانے میں مٰن نے شاعر بن رہا تھا علی برادران اور مہاتما گاندھی کا بڑا نام تھا اب یا تو میں اپنا تخلص گاندھی رکھ سکتا تھا ا ور نہ علی برادران میں سے کسی کا نام تخلص کے لیے منتخب کر سکتا تھا ، مولانا محمد علی کے دونوں اجزا مجھے تخلص کے لیے مناسب نہیں معلوم ہوئے ، البتہ مولانا شوکت علی کا شوکت میرے دل میں اتر گیا پھر اس تخلص کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ بھائی جان کا تخلص ارشد ہٹا کر اس شوکت کو نہایت آسانی سے فٹ کیا جاسکتا تھا لہٰذا میں نے اس اعتبار سے اس تخلص کو اپنے لیے مناسب سمجھا اور بھائی جان کے مقطعوں میں اسی کو رکھ رکلھ کر اپنے دوستوں کو سناتا رہا مگر ایک دن ناگاہ ایک غزل مجھ سے سرزد ہو گئی اور کچھ نہ پوچھئیے میری خوشی کا عالم جب میں نے اپنی پہلی غزل مکمل کرکے احباب سے داد حاصل کی مگر چونک یہ چوری کی غزل نہ تھی لہٰذا بے ساختہ جی چاہنے لگا کہ یہ غزل میرے نام سے کہیں نہ کہیں چھپ جائے میں نے اس غزل کی کئی نقلیں کیں اور اپنے گھر آنے والے تمام ادبی رسالوں کے پتہ پر ایک ایک نقل اس اپیل کے ساتھ روانہ کردی کہ
ع بہرِ خدا ہمیں بھی کوئی چھاپ دیجئیے
جس شامت کا میں نے ذکر کیا ہے وہ یوں آئی کہ ایک دن ڈاک میں مجھ کو اپنے نام آیا ہوا ایک رسالہ ملا میرے نام ایک رسالہ کا آنا میرے لیے کیا کم اہم تھا کہ اب جو اسے کھول کر دیکھتا ہوں تو اس میں میری وہی غزل ' رنگ تغزل ' کے زیر عنوان چھپی ہوئی تھی اور عنوان کے نیچے میرا نام بھی نہایت نمایاں حروف میںدرج تھا ۔' نتیجہ فکر شیخ محمد عمر صاحب شوکت تھانوی ' کاش آپ کو یقین آجائے کہ مجھ کو اپنی نگاہوں پر اعتبار نہ آسکا بار بار آنکھوں کو ملتا اور شروع سے آخر تک اس غزل کو پڑھتا تھا۔ہر چند کہ کسی طرح سیری نہ ہوتی تھی مگر اب جی چاہنے لگا تھا کہ گھر کے دوسرے افراد بھی اس غزل کو دیکھیں اور اندازہ کریں کہ اس میں ایک ایسا جوہر قابل بھی موجود ہے ۔ جو ایک ستارہ بن کر طلوع ہوا جس کو آفتاب بن کر نصف النہار پر پہنچنا ہے طنانچہ میں نے ایک چھوٹی سی میز ایک ایسے کمرے کے وسط میں رکھ دی جہاں سے سبھی کا گذر ہوتا رہتا تھا اور اس میز پر اس رسالے کا وہی غزل والا صفحہ کھول کر رکھ دیا کہ اس کی زیارت سے ہر اہل بصیرت مشرف ہو سکے
سب سے پہلی نظر جس اہل بصیرت کی اس رسالہ پر پڑی وہ والد صاحب قبلہ ہی تھے پہلے تو یونہی سرسری نظر سے اس رسالے کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے مگر پھر ٹھٹکے واپس لوٹے ،رسالہ اٹھایا اور چشمہ لگا کر پوری توجہ سے اس کو دیکھتے رہے کہ اس کے بعد رسالہ کے باقی صفحات پر بھی جستہ جستہ نظر ڈالی اور آخر اس رسالے کو لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے جہاں سے والدہ محترمہ کو آواز دی ' میں نے کہا ، کھاں ہیں آپ ،ذرا تشریف لائیے ' اس قسم کی آواز ان مواقع پر دیا کرتے تھے جب ان کو والدہ محترمہ سے کسی کی شکایت کرنا ہوتی تھی ورنہ عام حالات میں تشریف لانے کا ذکر نہ ہوتا تھا صرف اتنا ہی کافی ہوتا تھا کہ ' ارے بھئی ! میں نے کہا ، سنتی ہو ' لہٰذا ایک نوا شناس کی حیثیت سے والدہ محترمہ فوراً سمجھ گئیں کہ کسی نے کوئی گل کھلایا ہے اور اس کی جواب دہی ان کو کرنا پڑے گی وہ اس جواب دہ کے لیے تیار ہوتی ہوئی ان کے کمرے میں پہنچیں تو والد صاحب نے ان کو دیکھتے ہی کہا ۔،' ٓپ کے صاحبزادے بلند اقبال فرماتے ہیں کہ
ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں
میں پوچھتا ہوں کہ یہ اس نامعقول کوچے میں جاتے ہی کیوں ہیں '۔ والدہ بیچاری نے نہایت معصومیت سے فرمایا ،'مجھے تو خبر نہیں کہاں جاتا ہے اور کیوں جاتا ہے '۔ والد صاحب نے فرمایا ،' اور سنیں فرماتے ہیں آپ کے فرزند ارجمند کہ
انہیں جانبر ہوتے ہوئے کبھی دیکھا نہیں شوکت
جو عشق مرض مہلک کے کبھی بیمار ہوتے ہیں
مرض بھی ہوا تو وہ جس کی کمزوری وجہ سے مرض کی ' ر ' تک متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے مرض کی ' ر ' کو ساکن سمجھنے والا اگر شاعر ہو سکتا ہے تو تف ہے اس کی شاعری پر اور جس رسالے نے اس خرافت کو شائع کیا ہے اس کو تو میں کیا کہوں ،ذرا اس رسالے کا اسم مبارک ملاحظہ ہو ' ترچھی نطر ' ، لاحول ولا قوۃ ۔ اب یہ ادبی رسالوں کے نام ہونے لگے ہیں ۔ترچھی نظر ، بانک ے نسوریا ، رنگیلے بالم ۔ کچھ پلے بھی پڑا کہ واقعہ کیا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ بلند اقبال چشم بددور شاعر ہو گئے ہیں ۔شوکت تخلص فرماتے ہیں اور اس بکواس کو غزل کہتے ہیں ۔ پڑھے نہ لکھے ،نام محمد فاضل۔ نہ صاحبزادے کا املا درست ہے نہ انشا ہے اور چلے ہیں شاعری کرنے اب نہ لھنے کے رہیں گے نہ پڑھنے کے،صرف شاعری کریں گے اور ترچھی نظر میں اپنا کلام چھپواتے رہیں گے ان سے کہہ دیجئیے کہ آئندہ میں نہ سنوں کہ یہ شاعر ھیں اور آئندہ میں نہ دیکھوں ان کی غزل کسی ترچھی نظر یا پتلی کمر میں"