میں نے تو مزاحاً شکوہ کیا تھا ۔ بھلا بہنیں بھی کبھی بھائیوں کو بھلا سکتی ہیں۔
آپ میرا شمار اُن دس فیصد مردوں میں کر لیں جو
آپ کی اس بات سے صد فیصد متفق ہیں۔
کیونکہ ایک مزاح نگار کی حیثیت سے میں خود بھی ایسی ہی
مبالغہ آرائیوں میں ”ملوث“ رہا ہوں۔
پسند نا پسند ایک خالصتاً ذاتی مسئلہ ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جو بات یا چیز مجھے ناپسند ہو، وہ غلط بھی ہو
مجھے آپ کی ” ذاتی ناپسندیدگی“ کا پورا پورا احترام ہے۔ لہٰذا آئندہ آپ سے چھپ چھپا کر ہی بیویوں پر طنز و مزاح کی مبالغہ آرائی کیا کریں گے
اردو انشاء پردازی اور شاعری (شاعری تو آپ کو بھی بہت پسند ہے
) میں مبالغہ آرائی ایک لازمی ”جُز“ کی حیثیت رکھتی ہے، خواہ یہ سنجیدہ ادب ہو یا مزاحیہ ادب۔ خواتین کی مبالغہ آمیز تعریف سے تو اردو شاعری لبالب بھری ہوئی ہے۔ خصوصاً غزل تو نام ہی عورت کی تعریف (کرکے اسے بیوقوف بنانے
) کا ہے
کوئی نسوانی لبوں کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دے رہا ہے تو کوئی پسینہ کو عرق گلاب قرار دے رہا ہے۔ مبالغہ کی انتہا پر مبنی اس قسم کی شاعری مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین (آپ کے استثنیٰ کے ساتھ
) کو بھی بہت پسند ہے۔ ”مسئلہ“ یہ ہے روایتی طور پر اردو ادب میں ”غیر خواتین“ پر سنجیدہ شاعری (غزل وغیرہ) کی جاتی ہے جبکہ اپنی خاتونِ خانہ (بیوی) پر مزاحیہ شاعری کی جاتی ہے۔ اب یہ روایت اتنی ”مستحکم“ ہوچکی ہے کہ اس کا تبدیل ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ بلکہ اب تو مزاح نگار خواتین بھی اس میدان مین ”مد مقابل“ آگئیں ہیں۔ اور وہ نثر و نظم دونوں میں ”حسب استطاعت“ مزاحیہ مبالغہ آرائی کے جوہر دکھلانے لگی ہیں۔ صرف دو شعر ملاحظہ فرمائیے۔ ایک مرد مزاح نگار شاعر کا ہے تو دوسرا ایک خاتون پروفیسرکا (جوابی وار
)
جب سے عینک لگی ہے نظر والی
زہر لگنے لگی ہے گھر والی
جب سے چشمہ لگا ہے نظر والا
زہر لگنے لگا ہے گھر والا
گو مزاح کو ”نہایت سنجیدگی“ سے لکھا جاتا ہے لیکن اسے کبھی سنجیدگی سے نہیں پڑھنا چاہئے۔ بالکل اسی طرح جیسے غزل اور عاشقانہ (یا فاسقانہ
) شاعری کی مبالغہ آرائی کو کبھی بھی ”نثر میں ترجمہ“ کرکے نہیں پڑھنا چاہئے ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ شاعر بھی ”مسترد“ ہوسکتا ہے
۔ ۔ ۔ مثلاً نام کے ایک ”ڈبل مومن“
(مومن خان مومن) کا ”جھوٹ کی انتہا پر مبنی ایک شعر“ ملاحظہ فرمائیے، جس کے بدلہ میں مبینہ طور پر مرزا غالب اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ایک ٹی وی ڈرامہ میں ادبی ذوق کی حامل ایک ہیروئین کسی باغ میں اپنے ہیرو کی خاصی دیر سے منتظر تھی۔ ہیروآتے ہی تاخیر کی معذرت کرنے لگا تو ہیروئین نے شوخی سے مومن کا یہی شعر پڑھ دیا۔ ہیرو صاحب، جو ادب سے قطعی نا آشنا تھے، سخت غصہ میں آگئے اورناراضگی میں یہ کہہ کر”بدلہ“ لینے کی کوشش کی کہ ع
تم میرے پاس ہوتی ہو گویا
جب کوئی دوسری نہیں ہوتی