طارق شاہ
محفلین
غزلِ
فانی بدایونی
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
کاش تُو نے مجھے دِیوانہ بنایا ہوتا
دِل میں اِک شمْع سی جلتی نظر آتی ہے مجھے
آ کے اِس شمْع کو پروانہ بنایا ہوتا
تیرے سجدوں میں نہیں شانِ محبّت زاہد
سر کو خاکِ دَرِ جانانہ بنایا ہوتا
دِل تِری یاد میں آباد ہے اب تک، ورنہ
غم نے کب کا اِسے وِیرانہ بنایا ہوتا
درد دے کر دلِ فانی کو مِٹا دینا تھا
اِس حقِیقت کو بھی، افسانہ بنایا ہوتا
فانی بدایونی
(شوکت علی خاں)
فانی بدایونی
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
کاش تُو نے مجھے دِیوانہ بنایا ہوتا
دِل میں اِک شمْع سی جلتی نظر آتی ہے مجھے
آ کے اِس شمْع کو پروانہ بنایا ہوتا
تیرے سجدوں میں نہیں شانِ محبّت زاہد
سر کو خاکِ دَرِ جانانہ بنایا ہوتا
دِل تِری یاد میں آباد ہے اب تک، ورنہ
غم نے کب کا اِسے وِیرانہ بنایا ہوتا
درد دے کر دلِ فانی کو مِٹا دینا تھا
اِس حقِیقت کو بھی، افسانہ بنایا ہوتا
فانی بدایونی
(شوکت علی خاں)