عبد الرحمٰن
محفلین
گھر قریب آ چکا تھا. میں نے بائیک مین روڈ سے اپنی گلی کی طرف موڑ لی. لگتا تھا لائٹ گئی ہوئی ہے کیونکہ گلی میں اندھیرا تھا اور گھروں سے جنریٹرز کے چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں. اچانک ایک نقاب پوش بائیک کے ایک دم سامنے آ گیا. میں نے گھبرا کر بریک لگائی اور اس سے قبل که میں کچھ سمجھ پاتا، اس نے بائیک کے قریب آ کر پستول میری کنپٹی سے لگا دیا اور آواز کو دباتے ہوئے بولا: "موبائل نکالو"، میں نے فوری طور پر نتائج کی پرواه کیے بغیر اس کو زور کا دھکا دیا اور وه جو بائیک سے چپکا کھڑا تھا اس فوری ری ایکشن کے لیے شائد تیار نه تھا، لڑکھڑا کر زمین پر گر گیا. میں نے اسکو جا لیا اور تین چار تھپڑ کس کس کر لگائے، اسکے ہاتھ سے پستول گر چکا تھا. میں نے اسکو قابو کیا اور ایک ہاتھ سے جھٹکے سے اسکا نقاب اتار دیا اور اسکی شکل دیکھ کر میری حیرانی کی انتہا نه رہی، وه کوئی اور نہیں، میرا اپنا نوکر تھا جو که آج چھٹی پر تھا.
میرے غصے کی انتہا نه رہی......
"احسان فراموش!!!! مجھے شک تیری آواز سے هی هو گیا تھا تو نے جس گھر کا نمک کھایا وہیں نمک حرامی کی؟؟؟؟ هم تجھ سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے، تنخواه کے علاوه بھی وقت بے وقت تیرے کام آنے کی کوشش کی،اور تُو نے اس کا یه صله دیا که پستول لیکر آ گیا؟؟؟"
اسکی شکل رونے والی هوگئی، "نہیں صاحب!!!! وه پستول نقلی هے آپ خود چیک کر لیجیے"، میں نے غصّے سے پوچھا، "تو پھر اس حرکت کی کیا ضرورت تھی؟؟؟؟ اگر پیسوں کی ضرورت تھی تو مجھ سے یا بیگم صاحبه سے کہنا چاهیے تھا!!!! اب چلو سیدھے تھانے"..... وہ گھبرا کر بے اختیار بول پڑا، "نہیں نہیں صاحب!!! تھانے مت لے جائیے یه حرکت میں نے بیگم صاحبہ کے کہنے پر هی کی هے،
"کیا !! ؟؟؟"
میرے سر پر گویا حیرت کا آسمان گر پڑا تھا.....
"جی هاں!!!" وه رونی صورت بنا کر بولا: "بیگم صاحبه نے بولا تھا ، گھر آ کر وہ اِس منحوس موبائل میں ہی هر وقت گھسے رهتے هیں، تجھے هر قیمت پر آج یہ موبائل چھیننا هے ورنہ تیری نوکری سے چھٹی...."
میرے غصے کی انتہا نه رہی......
"احسان فراموش!!!! مجھے شک تیری آواز سے هی هو گیا تھا تو نے جس گھر کا نمک کھایا وہیں نمک حرامی کی؟؟؟؟ هم تجھ سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے، تنخواه کے علاوه بھی وقت بے وقت تیرے کام آنے کی کوشش کی،اور تُو نے اس کا یه صله دیا که پستول لیکر آ گیا؟؟؟"
اسکی شکل رونے والی هوگئی، "نہیں صاحب!!!! وه پستول نقلی هے آپ خود چیک کر لیجیے"، میں نے غصّے سے پوچھا، "تو پھر اس حرکت کی کیا ضرورت تھی؟؟؟؟ اگر پیسوں کی ضرورت تھی تو مجھ سے یا بیگم صاحبه سے کہنا چاهیے تھا!!!! اب چلو سیدھے تھانے"..... وہ گھبرا کر بے اختیار بول پڑا، "نہیں نہیں صاحب!!! تھانے مت لے جائیے یه حرکت میں نے بیگم صاحبہ کے کہنے پر هی کی هے،
"کیا !! ؟؟؟"
میرے سر پر گویا حیرت کا آسمان گر پڑا تھا.....
"جی هاں!!!" وه رونی صورت بنا کر بولا: "بیگم صاحبه نے بولا تھا ، گھر آ کر وہ اِس منحوس موبائل میں ہی هر وقت گھسے رهتے هیں، تجھے هر قیمت پر آج یہ موبائل چھیننا هے ورنہ تیری نوکری سے چھٹی...."