قرۃالعین اعوان
لائبریرین
انسان اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے،کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ساری زندگی وہ ان دو انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے اور جس راستے پر وہ سفر کرتا ہے ،وہ شکر کا راستہ ہوتا ہے
یا ناشکری کا۔
کچھ خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف،وہ صرف شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں۔
کچھ ایسے ہوتے ہیں جو صرف نا شکری کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں چاہے زوال حاصل کریں یا کمال،اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دونوں
راستوں پر سفر کرتے ہیں،کمال کی طرف جاتے ہوئے شکر کے اور زوال کی طرف جاتے ہوئے نا شکری کے۔
انسان اللہ کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔اشرف المخلوقات ہے مگر مخلوق ہی ہے ۔وہ اپنے خالق پر کوئی حق نہیں رکھتا
صرف فرض رکھتا ہے ۔وہ زمین پر ایسے کسی ٹریک رکارڈ کے ساتھ نہیں اتارا گیا کہ وہ اللہ سے کسی بھی چیز کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کر سکے مگر اس کے باوجود اللہ نے اس پر اپنی رحمتوں کا آغاز جنت سے کیا، اس پر نعمتوں کی بارش کر دی گئی اور اس سب کے بدلے اس سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا گیا اور وہ ہے شکر کا ۔
کیا محسوس کرتے ہیں آپ اگر کبھی زندگی میں کسی پر احسان کریں اور وہ شخص اس احسان کو یاد رکھنے اور آپ کا احسان مند ہونے کے بجائےآپ کو ان مواقع کی یاد دلائے جب آپ نے اس پر احسان نہیں کیا تھا یا آپ کو جتائے کہ آپ کا احسان اس کے لیئے کافی نہیں
تھا ،اگر آپ اس کے لیئے یہ کر دیتےیا وہ کر دیتے تو وہ زیادہ خوش ہوتا ۔کیا کریں گے آپ ایسے شخص کے ساتھ ؟ دوبارہ احسان کرنا تو درکنار آپ تو شاید اس سے تعلق رکھنا بھی گوارہ نہیں کریں گے ۔
ہم اللہ کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔اس کی رحمتوں اور نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے ہم ان چیزوں کے نہ ملنے پر کڑھتے رہتے ہیں جنہیں ہم حاصل کرنا چا ہتے تھے ۔اللہ پھر بھی رحیم ہے ۔وہ ہم پر اپنی رحمتیں نازل کرتا رہتا ہے ۔ان کی تعداد میں ہمارے اعمال کے مطابق کمی و بیشی کرتا رہتا ہے مگر ان کا سلسلہ کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں کرتا ۔
شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہے ایسی بیماری جو روز بروز ہمارے دلوں کو کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے ۔جو ہماری زبان پر
شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی،اگر ہمیں اللہ کا شکر کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ کرنے کی عادت بھی نہیں پڑتی،اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد رکھنے کی عادت نہ ہو تو ہم کسی بھی مخلوق کے احسان یاد رکھنا بھی نہیں سیکھتے۔
جب میں نے یہ تحریر عمیرہ احمد کے ناول پیر کامل میں پڑھی تو یوں لگا جیسے یہ اک اآئینہ ہو جس میں مجھے اپنا نا شکرا عکس نظر آنے لگا۔زندگی کے وہ تمام مراحل میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے جب میں نے ان نعمتوں کا کبھی شکر ادا نہیں کیا جو مجھے میسر تھیں۔میری نگاہیں ہمیشہ وہ چیز ڈھونڈتی رہیں جو مجھے حاصل نہ تھیں یا پھر وہ لمحے جب اللہ نے مجھے کوئی انعام دیا اور میں نے اس کی ویسی قدر نہ کی جیسی اس نعمت کا حق تھا یہی سوچا کہ مجھے یہ نہیں چا ہیئے تھا وہ چھاہیئے تھا ،یہ کیوں ملا وہ کیوں نہ ملا، نا شکرے پن کی انتہا دیکھئے میں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اللہ جو کچھ مجھے دے رہا ہے کیا میں اس کے ٖقابل بھی ہوں؟ وہ بھی محض مجھے اس کی رحمتوں کے طفیل ہی تو مل رہا ہے ۔دن میں پانچ بار کما حقہ ہم اسے یاد نہیں کر پاتے اور خود ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمیں چوبیس گھنٹے یاد رکھے ۔ہمیں اس کی نعمتوں کو بھلانے میں، شکوہ کرنے میں لحظہ نہیں لگتا ۔
بس یہ اک آئینہ ہے جس میں میری یہ صورت نظر آئی ۔۔۔
کیا آپ بھی وہی کچھ دیکھ رہے ہیں جو میں نے دیکھا؟؟؟؟؟
اگر نہیں، تو آپ اللہ کے شکر گزار بندے ہیں۔
اور اگر ہاں تو پھر یہ عکس بدلنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
یا ناشکری کا۔
کچھ خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف،وہ صرف شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں۔
کچھ ایسے ہوتے ہیں جو صرف نا شکری کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں چاہے زوال حاصل کریں یا کمال،اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دونوں
راستوں پر سفر کرتے ہیں،کمال کی طرف جاتے ہوئے شکر کے اور زوال کی طرف جاتے ہوئے نا شکری کے۔
انسان اللہ کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔اشرف المخلوقات ہے مگر مخلوق ہی ہے ۔وہ اپنے خالق پر کوئی حق نہیں رکھتا
صرف فرض رکھتا ہے ۔وہ زمین پر ایسے کسی ٹریک رکارڈ کے ساتھ نہیں اتارا گیا کہ وہ اللہ سے کسی بھی چیز کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کر سکے مگر اس کے باوجود اللہ نے اس پر اپنی رحمتوں کا آغاز جنت سے کیا، اس پر نعمتوں کی بارش کر دی گئی اور اس سب کے بدلے اس سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا گیا اور وہ ہے شکر کا ۔
کیا محسوس کرتے ہیں آپ اگر کبھی زندگی میں کسی پر احسان کریں اور وہ شخص اس احسان کو یاد رکھنے اور آپ کا احسان مند ہونے کے بجائےآپ کو ان مواقع کی یاد دلائے جب آپ نے اس پر احسان نہیں کیا تھا یا آپ کو جتائے کہ آپ کا احسان اس کے لیئے کافی نہیں
تھا ،اگر آپ اس کے لیئے یہ کر دیتےیا وہ کر دیتے تو وہ زیادہ خوش ہوتا ۔کیا کریں گے آپ ایسے شخص کے ساتھ ؟ دوبارہ احسان کرنا تو درکنار آپ تو شاید اس سے تعلق رکھنا بھی گوارہ نہیں کریں گے ۔
ہم اللہ کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔اس کی رحمتوں اور نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے ہم ان چیزوں کے نہ ملنے پر کڑھتے رہتے ہیں جنہیں ہم حاصل کرنا چا ہتے تھے ۔اللہ پھر بھی رحیم ہے ۔وہ ہم پر اپنی رحمتیں نازل کرتا رہتا ہے ۔ان کی تعداد میں ہمارے اعمال کے مطابق کمی و بیشی کرتا رہتا ہے مگر ان کا سلسلہ کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں کرتا ۔
شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہے ایسی بیماری جو روز بروز ہمارے دلوں کو کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے ۔جو ہماری زبان پر
شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی،اگر ہمیں اللہ کا شکر کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ کرنے کی عادت بھی نہیں پڑتی،اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد رکھنے کی عادت نہ ہو تو ہم کسی بھی مخلوق کے احسان یاد رکھنا بھی نہیں سیکھتے۔
جب میں نے یہ تحریر عمیرہ احمد کے ناول پیر کامل میں پڑھی تو یوں لگا جیسے یہ اک اآئینہ ہو جس میں مجھے اپنا نا شکرا عکس نظر آنے لگا۔زندگی کے وہ تمام مراحل میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے جب میں نے ان نعمتوں کا کبھی شکر ادا نہیں کیا جو مجھے میسر تھیں۔میری نگاہیں ہمیشہ وہ چیز ڈھونڈتی رہیں جو مجھے حاصل نہ تھیں یا پھر وہ لمحے جب اللہ نے مجھے کوئی انعام دیا اور میں نے اس کی ویسی قدر نہ کی جیسی اس نعمت کا حق تھا یہی سوچا کہ مجھے یہ نہیں چا ہیئے تھا وہ چھاہیئے تھا ،یہ کیوں ملا وہ کیوں نہ ملا، نا شکرے پن کی انتہا دیکھئے میں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اللہ جو کچھ مجھے دے رہا ہے کیا میں اس کے ٖقابل بھی ہوں؟ وہ بھی محض مجھے اس کی رحمتوں کے طفیل ہی تو مل رہا ہے ۔دن میں پانچ بار کما حقہ ہم اسے یاد نہیں کر پاتے اور خود ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمیں چوبیس گھنٹے یاد رکھے ۔ہمیں اس کی نعمتوں کو بھلانے میں، شکوہ کرنے میں لحظہ نہیں لگتا ۔
بس یہ اک آئینہ ہے جس میں میری یہ صورت نظر آئی ۔۔۔
کیا آپ بھی وہی کچھ دیکھ رہے ہیں جو میں نے دیکھا؟؟؟؟؟
اگر نہیں، تو آپ اللہ کے شکر گزار بندے ہیں۔
اور اگر ہاں تو پھر یہ عکس بدلنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔