عاطف بٹ
محفلین
میں نے یہ یادداشتیں ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا جیل میں قلم بند کی تھیں، جہاں مجھے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں شیخ مجیب الرحمان کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں قید رکھا گیا تھا۔ میں نہ کوئی سیاست دان تھا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کارکن۔ البتہ میں یحییٰ حکومت کی درخواست پر ۱۹۷۱ء میں برطانیہ اور امریکا گیا تھا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ مشرقی پاکستان میں جاری جدوجہد دراصل کن دو قوتوں کے درمیان تھی۔ ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور دوسری طرف وہ جو اِس کے نظریے سے محبت کرتے تھے۔
جیل میں میرا موڈ شدید غصے، بدحواسی اور مایوسی کے امتزاج پر مبنی تھا۔ قتل کی ایک ناکام کوشش نے مجھے جسمانی معذوری سے بھی دوچار کر دیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو کچھ میرے عقائد اور نظریات پر مبنی تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مٹی میں مل چکا تھا۔ مجھ پر اس کا خاص نفسیاتی اثر مرتب ہوا تھا۔ دل میں یہ احساس بھی جاگزیں تھا کہ ہم ایک ایسی شکست سے دوچار ہوئے ہیں جس کے اثرات سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ ۱۹۷۱ءء میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی وہ میرے لوگوں کے لیے سودمند نہیں تھی۔ اس خیال نے مجھے خاصے دباؤ میں رکھا اس لیے کہ کہیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس خاص ذہنی کیفیت اور فضا میں، میں نے ان واقعات سے متعلق یادداشتیں قلم بند کیں جو ۱۹۷۱ء کے سانحے پر منتج ہوئے۔
میری خواہش تھی کہ تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر دل کی بات لکھوں۔ مگر اس بات کا کم ہی یقین تھا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ کبھی منظرِ عام پر آ سکے گا۔ بہرحال اس بات کو میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ جو کچھ دیکھا اور سنا ہے اُسے ریکارڈ پر ضرور لے آؤں۔
میں نے سچ بیان کیا ہے اور اس معاملے میں کسی دوست یا دشمن کی پرواہ نہیں کی ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ میں بیان کر سکوں کہ ہم اُس ریاست کی حفاظت کیوں نہ کر سکے جو کروڑوں انسانوں کے خوابوں کی تعبیر تھی اور جس کے حصول کے لیے ہم نے بے حساب خون، پسینہ اور آنسو بہائے تھے۔ منافقوں کی موقع پرستی سے بھی میں بہت رنجیدہ تھا۔ میں نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے تھے جو آخری لمحات تک متحدہ پاکستان کے حامی تھے، مگر بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ’’فاتحین‘‘ کو یقین دلانے میں مصروف ہو گئے کہ انہوں نے بھی اسی دن کا خواب دیکھا تھا۔
سلاخوں کے پیچھے تنہائی میں ان یادداشتوں کو قلم بند ہوئے اکیس سال بیت چکے ہیں۔ مجھے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے جو کچھ ہوتا دکھائی دے رہا تھا، وہ ہو چکا ہے۔ شدید غربت، سیاسی عدم استحکام اور پسماندگی اُن کے لیے ایک تازیانہ ہے جنہوں نے ’’پاکستان کے استبداد‘‘ سے نجات کے لیے ہتھیار اٹھائے اور جو اَب یہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کا قیام کوئی بہت مسرت انگیز حقیقت نہیں۔ کچھ لوگ نجی طور پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں، مگر میں ان کا ذکر کرتے ہوئے پریشانی سی محسوس کرتا ہوں۔ میں نے ۱۹۷۳ء میں اپنے اندر جو مایوسی محسوس کی تھی، یہ لوگ اُس سے کہیں زیادہ مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
میں نے ۷۱۔۱۹۷۰ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ تاہم میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت دے کر بنگالی قوم پرستی ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ضروری استحکام فراہم کر سکتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کا حل مایوسی نہیں۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے وجود پر یقین رکھنا ہے۔
جن پر میں نے تنقید کی ہے، انہیں اگر میری زبان اور لہجے میں سختی محسوس ہو تو خیال رہے کہ میں نے یہ کتاب شدید (ذہنی و نفسیاتی) دباؤ میں لکھی تھی۔ انہیں محسوس کرنا چاہیے کہ جب خواب بکھرتے ہیں تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ کتاب میں جابجا بیان کا خلا سا محسوس ہوگا، جس کی توضیح سے زیادہ، معذرت مناسب ہے۔ کتاب کا اختتام بھی آپ کو خاصا بے ربط سا محسوس ہوگا، اس کے لیے بھی میں معذرت خواہ ہوں۔
کتاب میں رہ جانے والا خلا مَیں ۵ دسمبر ۱۹۷۳ء کو جیل سے رہائی پانے کے بعد دُور کرسکتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جیل میں رہائی کی امید کے نہ ہونے کی کیفیت میں، جو کچھ میں نے لکھا وہ گھر کی آزاد فضا میں لکھی جانے والی باتوں سے بہت مختلف ہو گا۔ میں اس کتاب میں ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے کریک ڈاؤن میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر بھی پوری تفصیل سے بحث نہیں کر سکا۔ میں یہ بھی بیان نہیں کر پایا کہ اس کریک ڈاؤن کی نوعیت کیا تھی؟ پاکستانی فوج نے دسمبر ۱۹۷۰ء سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے کوئی بھی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ اور پھر اچانک حرکت میں کیوں آگئی، جبکہ اس کریک ڈاؤن کے مؤثر ہونے کا خود اسے بھی کم ہی یقین تھا؟۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات پر بھی میں کھل کر روشنی نہیں ڈال سکا جو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ جو شخص ۱۹۷۰ء میں زندہ و موجود رہا ہو اور اب بھی ان واقعات کو یاد کر سکتا ہو اُسے اندازا ہو گا کہ عوامی لیگ نے انتخابات میں بھاری اکثریت پانے کے لیے کس طرح مخالفین کے خلاف بھرپور عسکری طاقت کا استعمال کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد فتح سے بڑھ کر، واک اوور حاصل کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہو گا کہ کُھلنا اور دیگر ساحلی علاقوں میں ۱۹۷۱ء کے خوفناک سمندری طوفان کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے باوجود، شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیا تھا اور یحییٰ خان کو دھمکی دی تھی کہ انتخابات شیڈول کے مطابق نہ ہوئے تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔
یہ اور بہت سے دوسرے واقعات مَیں اس لیے بیان نہیں کر سکا کہ ہمیں یہ عندیہ مل چکا تھا کہ ہم دسمبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کے تحت رہا کر دیے جائیں گے۔ پہلے میں نے یہ سوچا تھا کہ جیل سے باہر نکلنے پر مسودّے میں اضافہ نہیں کروں گا، مگر پھر یہ سوچا کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کا سبب بننے والے واقعات کے بارے میں رائے دینا ضروری ہے، خواہ بیان بے ربط ہی لگے۔
۱۹۷۵ء میں، میں سعودی عرب جانے کے لیے، پہلے لندن روانہ ہوا، اس وقت میں نے کتاب کا مسودّہ عجلت میں ٹائپ کروا کے ایک دوست کے حوالے کر دیا۔ تاکہ یہ کہیں گم نہ ہو جائے۔ میں اپنے اس دوست کا شکرگزار ہوں کہ اس نے ۲۰ سال تک مسودّے کو سنبھال کر رکھا۔ کہیں ۱۹۹۲ء میں جاکر مجھے اس کی اشاعت کا خیال آیا۔
اس کتاب میں شائع ہونے والا مواد وہی ہے جو ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا جیل سے میری رہائی کے وقت تھا۔ جن دوستوں کی محبت اور عنایت سے یہ کتاب شائع ہو رہی ہے میرے پاس ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ تاہم میں تجمل حسین، محمد اشرف حسین (ایڈیٹر بنگالی ماہنامہ ’’نتون سفر‘‘)، مصباح الدین احمد اور محمد عبدالمطلب کے تعاون کا خاص طور پر شکر گزار ہوں۔
اَب مَیں ۷۵ سال کا ہو چکا ہوں۔ اور اس کتاب کی اشاعت میرے لیے ایک دیرینہ خواب کی تعبیر کی طرح ہوگی۔
اگر تاریخ نے ۱۰۰ سال بعد بھی مادرِ وطن سے متعلق میرے خدشات کو غلط ثابت کر دیا تو قبر میں سہی، مجھ سے زیادہ خوش کوئی نہ ہو گا۔
(پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی انگریزی تصنیف The Wastes of Time: Reflections on the Decline and Fall of East Pakistan کے اردو ترجمہ ’شکستِ آرزو‘ کا’ پیش لفظ‘)
جیل میں میرا موڈ شدید غصے، بدحواسی اور مایوسی کے امتزاج پر مبنی تھا۔ قتل کی ایک ناکام کوشش نے مجھے جسمانی معذوری سے بھی دوچار کر دیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو کچھ میرے عقائد اور نظریات پر مبنی تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مٹی میں مل چکا تھا۔ مجھ پر اس کا خاص نفسیاتی اثر مرتب ہوا تھا۔ دل میں یہ احساس بھی جاگزیں تھا کہ ہم ایک ایسی شکست سے دوچار ہوئے ہیں جس کے اثرات سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ ۱۹۷۱ءء میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی وہ میرے لوگوں کے لیے سودمند نہیں تھی۔ اس خیال نے مجھے خاصے دباؤ میں رکھا اس لیے کہ کہیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس خاص ذہنی کیفیت اور فضا میں، میں نے ان واقعات سے متعلق یادداشتیں قلم بند کیں جو ۱۹۷۱ء کے سانحے پر منتج ہوئے۔
میری خواہش تھی کہ تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر دل کی بات لکھوں۔ مگر اس بات کا کم ہی یقین تھا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ کبھی منظرِ عام پر آ سکے گا۔ بہرحال اس بات کو میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ جو کچھ دیکھا اور سنا ہے اُسے ریکارڈ پر ضرور لے آؤں۔
میں نے سچ بیان کیا ہے اور اس معاملے میں کسی دوست یا دشمن کی پرواہ نہیں کی ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ میں بیان کر سکوں کہ ہم اُس ریاست کی حفاظت کیوں نہ کر سکے جو کروڑوں انسانوں کے خوابوں کی تعبیر تھی اور جس کے حصول کے لیے ہم نے بے حساب خون، پسینہ اور آنسو بہائے تھے۔ منافقوں کی موقع پرستی سے بھی میں بہت رنجیدہ تھا۔ میں نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے تھے جو آخری لمحات تک متحدہ پاکستان کے حامی تھے، مگر بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ’’فاتحین‘‘ کو یقین دلانے میں مصروف ہو گئے کہ انہوں نے بھی اسی دن کا خواب دیکھا تھا۔
سلاخوں کے پیچھے تنہائی میں ان یادداشتوں کو قلم بند ہوئے اکیس سال بیت چکے ہیں۔ مجھے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے جو کچھ ہوتا دکھائی دے رہا تھا، وہ ہو چکا ہے۔ شدید غربت، سیاسی عدم استحکام اور پسماندگی اُن کے لیے ایک تازیانہ ہے جنہوں نے ’’پاکستان کے استبداد‘‘ سے نجات کے لیے ہتھیار اٹھائے اور جو اَب یہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کا قیام کوئی بہت مسرت انگیز حقیقت نہیں۔ کچھ لوگ نجی طور پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں، مگر میں ان کا ذکر کرتے ہوئے پریشانی سی محسوس کرتا ہوں۔ میں نے ۱۹۷۳ء میں اپنے اندر جو مایوسی محسوس کی تھی، یہ لوگ اُس سے کہیں زیادہ مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
میں نے ۷۱۔۱۹۷۰ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ تاہم میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت دے کر بنگالی قوم پرستی ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ضروری استحکام فراہم کر سکتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کا حل مایوسی نہیں۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے وجود پر یقین رکھنا ہے۔
جن پر میں نے تنقید کی ہے، انہیں اگر میری زبان اور لہجے میں سختی محسوس ہو تو خیال رہے کہ میں نے یہ کتاب شدید (ذہنی و نفسیاتی) دباؤ میں لکھی تھی۔ انہیں محسوس کرنا چاہیے کہ جب خواب بکھرتے ہیں تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ کتاب میں جابجا بیان کا خلا سا محسوس ہوگا، جس کی توضیح سے زیادہ، معذرت مناسب ہے۔ کتاب کا اختتام بھی آپ کو خاصا بے ربط سا محسوس ہوگا، اس کے لیے بھی میں معذرت خواہ ہوں۔
کتاب میں رہ جانے والا خلا مَیں ۵ دسمبر ۱۹۷۳ء کو جیل سے رہائی پانے کے بعد دُور کرسکتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جیل میں رہائی کی امید کے نہ ہونے کی کیفیت میں، جو کچھ میں نے لکھا وہ گھر کی آزاد فضا میں لکھی جانے والی باتوں سے بہت مختلف ہو گا۔ میں اس کتاب میں ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے کریک ڈاؤن میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر بھی پوری تفصیل سے بحث نہیں کر سکا۔ میں یہ بھی بیان نہیں کر پایا کہ اس کریک ڈاؤن کی نوعیت کیا تھی؟ پاکستانی فوج نے دسمبر ۱۹۷۰ء سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے کوئی بھی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ اور پھر اچانک حرکت میں کیوں آگئی، جبکہ اس کریک ڈاؤن کے مؤثر ہونے کا خود اسے بھی کم ہی یقین تھا؟۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات پر بھی میں کھل کر روشنی نہیں ڈال سکا جو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ جو شخص ۱۹۷۰ء میں زندہ و موجود رہا ہو اور اب بھی ان واقعات کو یاد کر سکتا ہو اُسے اندازا ہو گا کہ عوامی لیگ نے انتخابات میں بھاری اکثریت پانے کے لیے کس طرح مخالفین کے خلاف بھرپور عسکری طاقت کا استعمال کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد فتح سے بڑھ کر، واک اوور حاصل کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہو گا کہ کُھلنا اور دیگر ساحلی علاقوں میں ۱۹۷۱ء کے خوفناک سمندری طوفان کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے باوجود، شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیا تھا اور یحییٰ خان کو دھمکی دی تھی کہ انتخابات شیڈول کے مطابق نہ ہوئے تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔
یہ اور بہت سے دوسرے واقعات مَیں اس لیے بیان نہیں کر سکا کہ ہمیں یہ عندیہ مل چکا تھا کہ ہم دسمبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کے تحت رہا کر دیے جائیں گے۔ پہلے میں نے یہ سوچا تھا کہ جیل سے باہر نکلنے پر مسودّے میں اضافہ نہیں کروں گا، مگر پھر یہ سوچا کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کا سبب بننے والے واقعات کے بارے میں رائے دینا ضروری ہے، خواہ بیان بے ربط ہی لگے۔
۱۹۷۵ء میں، میں سعودی عرب جانے کے لیے، پہلے لندن روانہ ہوا، اس وقت میں نے کتاب کا مسودّہ عجلت میں ٹائپ کروا کے ایک دوست کے حوالے کر دیا۔ تاکہ یہ کہیں گم نہ ہو جائے۔ میں اپنے اس دوست کا شکرگزار ہوں کہ اس نے ۲۰ سال تک مسودّے کو سنبھال کر رکھا۔ کہیں ۱۹۹۲ء میں جاکر مجھے اس کی اشاعت کا خیال آیا۔
اس کتاب میں شائع ہونے والا مواد وہی ہے جو ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا جیل سے میری رہائی کے وقت تھا۔ جن دوستوں کی محبت اور عنایت سے یہ کتاب شائع ہو رہی ہے میرے پاس ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ تاہم میں تجمل حسین، محمد اشرف حسین (ایڈیٹر بنگالی ماہنامہ ’’نتون سفر‘‘)، مصباح الدین احمد اور محمد عبدالمطلب کے تعاون کا خاص طور پر شکر گزار ہوں۔
اَب مَیں ۷۵ سال کا ہو چکا ہوں۔ اور اس کتاب کی اشاعت میرے لیے ایک دیرینہ خواب کی تعبیر کی طرح ہوگی۔
اگر تاریخ نے ۱۰۰ سال بعد بھی مادرِ وطن سے متعلق میرے خدشات کو غلط ثابت کر دیا تو قبر میں سہی، مجھ سے زیادہ خوش کوئی نہ ہو گا۔
(پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی انگریزی تصنیف The Wastes of Time: Reflections on the Decline and Fall of East Pakistan کے اردو ترجمہ ’شکستِ آرزو‘ کا’ پیش لفظ‘)