La Alma
لائبریرین
شکستگی
کیسا یہ خرابہ ہے ہر رنگ شکستہ ہے
پہلے بھی تو ان صدیوں کی کوکھ سے کچھ پھیکے لمحات جنم لیتے تھے اور افق اپنے گالوں پہ شفق مل کر کچھ زرد، ذرا غمگیں سی شام سجاتا تھا
اوراقِ فلک پر جب یہ وقت، صراحی سے کچھ رنگ گراتا تو ایام نکھر جاتے
تھک ہار کے روز و شب، آغوشِ تمنا میں کچھ وقت بِتاتے تھے
گھڑیاں وہ مچل کر پھر
دل سوز ، اک انجانی سی لے پہ تھرکتی تھیں
اک وعدہِِ فردا پر سرمستیِ دوراں پھر ہر رنج بھلا دیتی
اس سوز ِجنوں سے ہی سب راگ نکلتے تھے
آزار بہلتے تھے
پیانو پہ وہی دھن ہے
بے درد زمانہ اب سر اس پہ نہیں دھنتا
کیوں سازِ محبت پر ہنگامہ نہیں اٹھتا