شکوہ

عرفان سعید

محفلین
شکوہ
کیوں سزا کار بنوں صرف میں روپوش رہوں
فکرِ بیوی کروں تیرے لیے پر جوش رہوں
چیخیں بچوں کی سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
زوجہ میں باپ نہیں تیرا کہ خاموش رہوں
شکوہ بیوی سے مری بہنوں نے سمجھایا مجھے
درس کچھ کچھ یہ ماں نے خوب تھا پڑھایا مجھے

ہے بجا جھڑکیوں کے خوف سے مفرور ہوں میں
تیرا بندہ ،ترا خادم، ترا مزدور ہوں میں
بچے خاموش ہیں فریاد سے معمور ہوں میں
قصۂ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
زوجہ میرے غموں کی آج تو رودادیں سن
چھوڑ کر اپنے تو نخرے مری فریادیں سن

مجھ سے پہلے تھا عجب زیست تری کا منظر
گال تھے تیرے پتھر ، بال مثل ٹوٹے شجر
رشتہ پانے میں مگن تھی تری اماں کی نظر
شادی کرتا کوئی اَن دیکھے دیو سے کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا
قوّتِ بازوئے شوہر نے کیا کام ترا

پیش کرتا ہوں تجھے چھالیہ بھی پانوں میں
آلو اور قیمہ لگا کر بھی دیا نانوں میں
دی اذانیں بھی گیارہ بچوں کے کانوں میں
تیری خاطر میں پھرا آندھی میں طوفانوں میں
آنکھ اک بھاتے نہیں جو تجھی سے سڑتے تھے
کھاتے ہم مار بھی ان سے جو تجھے پڑتے تھے

فوج اک تیرے عزیزوں کی بھی گھر چھائی ہے
کوئی چاچو، کوئی ماموں ہے، کوئی تائی ہے
چاہا جب تیری ممانی بھی ادھر آئی ہے
آج کہہ دوں کبھی خالہ تری کچھ لائی ہے ؔ؟
پالوں بچوں کو ترے یا ترے غم خواروں کو
لاڈلے انکے سنبھالوں یا کہ بے چاروں کو

تیرے جھگڑے میں ہر اک سے میں تو اڑ جاتا ہوں
بہنا کیا چیز ہے میں اماں سے لڑ جاتا ہوں
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتا ہوں
تیری آہٹ بھی سنوں ڈر سے سکڑ جاتا ہوں
رعب بیگم کا ہر اک پر بھی بٹھایا میں نے
اماں کے آگے ترا نعرہ لگایا میں نے

دفتروں میں سڑکوں پر سحر و شام پھرے
تیری خاطر میں بہت سے مرے تو کام پھرے
درزی موچی کی طرف لے کے ترا نام پھرے
پھر بھی شکوہ ہے کہ جتنا پھرے ناکام پھرے
دوکاں تو دکاں ہے ریڑھی بھی نہ چھوڑی میں نے
بس نہیں ملتی تو دوڑا دی ہے گھوڑی میں نے

۔۔۔ عرفان ۔۔۔
 
شکوہ
کیوں سزا کار بنوں صرف میں روپوش رہوں
فکرِ بیوی کروں تیرے لیے پر جوش رہوں
چیخیں بچوں کی سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
زوجہ میں باپ نہیں تیرا کہ خاموش رہوں
شکوہ بیوی سے مری بہنوں نے سمجھایا مجھے
درس کچھ کچھ یہ ماں نے خوب تھا پڑھایا مجھے

ہے بجا جھڑکیوں کے خوف سے مفرور ہوں میں
تیرا بندہ ،ترا خادم، ترا مزدور ہوں میں
بچے خاموش ہیں فریاد سے معمور ہوں میں
قصۂ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
زوجہ میرے غموں کی آج تو رودادیں سن
چھوڑ کر اپنے تو نخرے مری فریادیں سن

مجھ سے پہلے تھا عجب زیست تری کا منظر
گال تھے تیرے پتھر ، بال مثل ٹوٹے شجر
رشتہ پانے میں مگن تھی تری اماں کی نظر
شادی کرتا کوئی اَن دیکھے دیو سے کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا
قوّتِ بازوئے شوہر نے کیا کام ترا

پیش کرتا ہوں تجھے چھالیہ بھی پانوں میں
آلو اور قیمہ لگا کر بھی دیا نانوں میں
دی اذانیں بھی گیارہ بچوں کے کانوں میں
تیری خاطر میں پھرا آندھی میں طوفانوں میں
آنکھ اک بھاتے نہیں جو تجھی سے سڑتے تھے
کھاتے ہم مار بھی ان سے جو تجھے پڑتے تھے

فوج اک تیرے عزیزوں کی بھی گھر چھائی ہے
کوئی چاچو، کوئی ماموں ہے، کوئی تائی ہے
چاہا جب تیری ممانی بھی ادھر آئی ہے
آج کہہ دوں کبھی خالہ تری کچھ لائی ہے ؔ؟
پالوں بچوں کو ترے یا ترے غم خواروں کو
لاڈلے انکے سنبھالوں یا کہ بے چاروں کو

تیرے جھگڑے میں ہر اک سے میں تو اڑ جاتا ہوں
بہنا کیا چیز ہے میں اماں سے لڑ جاتا ہوں
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتا ہوں
تیری آہٹ بھی سنوں ڈر سے سکڑ جاتا ہوں
رعب بیگم کا ہر اک پر بھی بٹھایا میں نے
اماں کے آگے ترا نعرہ لگایا میں نے

دفتروں میں سڑکوں پر سحر و شام پھرے
تیری خاطر میں بہت سے مرے تو کام پھرے
درزی موچی کی طرف لے کے ترا نام پھرے
پھر بھی شکوہ ہے کہ جتنا پھرے ناکام پھرے
دوکاں تو دکاں ہے ریڑھی بھی نہ چھوڑی میں نے
بس نہیں ملتی تو دوڑا دی ہے گھوڑی میں نے

۔۔۔ عرفان ۔۔۔
واہ جناب بہت خوب
مزاہ آگیا مگر شادی شدہ نہ ہونے کے باعث بھرپور مزہ نہیں لے پایا مگر امید ہے شادی شدہ محفلین کو اس کے تمام اشعار میں اپنی زندگی کے کچھ لمحے اور واقعات ضرور یاد آئیں گے۔
 
شکوہ
کیوں سزا کار بنوں صرف میں روپوش رہوں
فکرِ بیوی کروں تیرے لیے پر جوش رہوں
چیخیں بچوں کی سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
زوجہ میں باپ نہیں تیرا کہ خاموش رہوں
شکوہ بیوی سے مری بہنوں نے سمجھایا مجھے
درس کچھ کچھ یہ ماں نے خوب تھا پڑھایا مجھے

ہے بجا جھڑکیوں کے خوف سے مفرور ہوں میں
تیرا بندہ ،ترا خادم، ترا مزدور ہوں میں
بچے خاموش ہیں فریاد سے معمور ہوں میں
قصۂ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
زوجہ میرے غموں کی آج تو رودادیں سن
چھوڑ کر اپنے تو نخرے مری فریادیں سن

مجھ سے پہلے تھا عجب زیست تری کا منظر
گال تھے تیرے پتھر ، بال مثل ٹوٹے شجر
رشتہ پانے میں مگن تھی تری اماں کی نظر
شادی کرتا کوئی اَن دیکھے دیو سے کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا
قوّتِ بازوئے شوہر نے کیا کام ترا

پیش کرتا ہوں تجھے چھالیہ بھی پانوں میں
آلو اور قیمہ لگا کر بھی دیا نانوں میں
دی اذانیں بھی گیارہ بچوں کے کانوں میں
تیری خاطر میں پھرا آندھی میں طوفانوں میں
آنکھ اک بھاتے نہیں جو تجھی سے سڑتے تھے
کھاتے ہم مار بھی ان سے جو تجھے پڑتے تھے

فوج اک تیرے عزیزوں کی بھی گھر چھائی ہے
کوئی چاچو، کوئی ماموں ہے، کوئی تائی ہے
چاہا جب تیری ممانی بھی ادھر آئی ہے
آج کہہ دوں کبھی خالہ تری کچھ لائی ہے ؔ؟
پالوں بچوں کو ترے یا ترے غم خواروں کو
لاڈلے انکے سنبھالوں یا کہ بے چاروں کو

تیرے جھگڑے میں ہر اک سے میں تو اڑ جاتا ہوں
بہنا کیا چیز ہے میں اماں سے لڑ جاتا ہوں
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتا ہوں
تیری آہٹ بھی سنوں ڈر سے سکڑ جاتا ہوں
رعب بیگم کا ہر اک پر بھی بٹھایا میں نے
اماں کے آگے ترا نعرہ لگایا میں نے

دفتروں میں سڑکوں پر سحر و شام پھرے
تیری خاطر میں بہت سے مرے تو کام پھرے
درزی موچی کی طرف لے کے ترا نام پھرے
پھر بھی شکوہ ہے کہ جتنا پھرے ناکام پھرے
دوکاں تو دکاں ہے ریڑھی بھی نہ چھوڑی میں نے
بس نہیں ملتی تو دوڑا دی ہے گھوڑی میں نے

۔۔۔ عرفان ۔۔۔
واہ عرفان بھائی آپ نے تو کمال شمال کر ڈالا ،
کیا ہی خوب شکوہ پیش کیا ،
اب تو ہمیں بھی حمیرا بہن کی طرح بھابھی جی کے جواب شکوہ کا انتظار شدت سے رہے گا ،کب یہ کلام بھابھی جی کو پڑھوا رہے ہیں تاکہ ہمیں جواب شکوہ پڑھنے کا خوبصورت موقع میسر آ سکے ۔
 
واہ جناب بہت خوب
مزاہ آگیا مگر شادی شدہ نہ ہونے کے باعث بھرپور مزہ نہیں لے پایا مگر امید ہے شادی شدہ محفلین کو اس کے تمام اشعار میں اپنی زندگی کے کچھ لمحے اور واقعات ضرور یاد آئیں گے۔
اور ہوسکتاہے وہ مناظر بھی آنکھوں میں پھر جاتے ہوں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہو:LOL::p
 
Top