محمد بلال اعظم
لائبریرین
شگفتہ دل ہیں کہ غم بھی عطا بہار کی ہے
گلِ حباب ہیں سر میں ہَوا بہار کی ہے
ہجومِ جلوۂ گل پر نظر نہ رکھ کہ یہاں
جراحتوں کے چمن پر ردا بہار کی ہے
کوئی تو لالۂ خونیں کفن سے بھی پوچھے
یہ فصل چاکِ جگر کی ہے یا بہار کی ہے
میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہَوا بہار کی ہے
شمار زخم ابھی سے فرازؔ کیا کرنا
ابھی تو جان مری اِبتدا بہار کی ہے
(جاناں جاناں سے انتخاب)