فراز شگفتہ دل ہیں کہ غم بھی عطا بہار کی ہے

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شگفتہ دل ہیں کہ غم بھی عطا بہار کی ہے​
گلِ حباب ہیں سر میں ہَوا بہار کی ہے​
ہجومِ جلوۂ گل پر نظر نہ رکھ کہ یہاں​
جراحتوں کے چمن پر ردا بہار کی ہے​
کوئی تو لالۂ خونیں کفن سے بھی پوچھے​
یہ فصل چاکِ جگر کی ہے یا بہار کی ہے​
میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہَوا بہار کی ہے
شمار زخم ابھی سے فرازؔ کیا کرنا​
ابھی تو جان مری اِبتدا بہار کی ہے​
(جاناں جاناں سے انتخاب)​
 

محمداحمد

لائبریرین
شمار زخم ابھی سے فرازؔ کیا کرنا
ابھی تو جان مری اِبتدا بہار کی ہے


واہ واہ ! کیا خوب انتخاب ہے بلال خوش رہیے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس شعر کا دوسرا مصرہ تو بہت ہی مشہور و مقبول ہے
جی۔
اور اسی شعر کی وجہ سے مین نے یہ محفل پہ پوسٹ کی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ میں آج تک اسے غالب کا شعر سمجھتا رہا، کل جاناں جاناں کی دوبارہ ورق گردانی کے دوران یہ غزل پڑھی تو پتہ لگا۔
 
Top