الف عین
لائبریرین
پہلے اس غزل کا پس منظر۔۔۔
مارچ کے پہلے ہفتےمیں حیدر آباد آیا تھا ناگپور سے تو برادرم مصحف اقبال توصیفی نے اپنی غزل سنائی، بلکہ اپنی عادت کے مطابق فون پر ہی پوچھنے لگے تھے کہ یہ مصرعی بہتر ہے یا یہ دوسرا۔ ملاقات ہر بھی ایسی ہی گفتگو رہی۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اس زمین میں میں بھی غزل کہوں۔ عام طور پر میں ’فرمائشی‘ شاعری نہیں کرتا لیکن اسی رات ناگپور جاتے وقت بس میں یہ غزل ہو گئی۔ اپریل میں تبادلے کے بعد ملاقات ہوئی تو ان کو سنائی۔ اقبال بھائی نے وہیں مجھے سے لکھوا لی کہ یہ دونوں غزلوں کی ساتھ ساتھ شائع ہوں۔ اور جون کے ماہنامہ سب رس میں ہم دونوں کی ایک ہی زمین کی دونوں غزلیں ایک ہی صفحے پر، اور سب سے پہلے شائع ہویہں۔ اقبال بھائی کے طفیل، ورنہ ورنی سب رس میں مجھے تیسے چوتھے صفحے پر (شاعری کے( چھاپا جاتا تھا۔
تو غزل حاضر ہے، یہی اب تک کی آخری ہے:
سمجھو اسے شاعری ہماری
یا دل کی کہو لگی ہماری
کہا چِت بھی تھی، پَٹ بھی تھی تمہاری
لو ۔۔ بات تو مان لی ہماری
پہلے ہی پتنگ کٹ چکی تھی
لو ڈور بھی لُٹ گئی ہماری
اب کس کی امید ، کون آئے
اب شام بھی بجھ چلی ہماری
کچھ تھا کہ اٹھا رہا سر اپنا
دیکھو تو کج کلہی ہماری
افسانے سنے جو اس کی چُپ میں
کہتی رہی خامشی ہماری
مارچ کے پہلے ہفتےمیں حیدر آباد آیا تھا ناگپور سے تو برادرم مصحف اقبال توصیفی نے اپنی غزل سنائی، بلکہ اپنی عادت کے مطابق فون پر ہی پوچھنے لگے تھے کہ یہ مصرعی بہتر ہے یا یہ دوسرا۔ ملاقات ہر بھی ایسی ہی گفتگو رہی۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اس زمین میں میں بھی غزل کہوں۔ عام طور پر میں ’فرمائشی‘ شاعری نہیں کرتا لیکن اسی رات ناگپور جاتے وقت بس میں یہ غزل ہو گئی۔ اپریل میں تبادلے کے بعد ملاقات ہوئی تو ان کو سنائی۔ اقبال بھائی نے وہیں مجھے سے لکھوا لی کہ یہ دونوں غزلوں کی ساتھ ساتھ شائع ہوں۔ اور جون کے ماہنامہ سب رس میں ہم دونوں کی ایک ہی زمین کی دونوں غزلیں ایک ہی صفحے پر، اور سب سے پہلے شائع ہویہں۔ اقبال بھائی کے طفیل، ورنہ ورنی سب رس میں مجھے تیسے چوتھے صفحے پر (شاعری کے( چھاپا جاتا تھا۔
تو غزل حاضر ہے، یہی اب تک کی آخری ہے:
سمجھو اسے شاعری ہماری
یا دل کی کہو لگی ہماری
کہا چِت بھی تھی، پَٹ بھی تھی تمہاری
لو ۔۔ بات تو مان لی ہماری
پہلے ہی پتنگ کٹ چکی تھی
لو ڈور بھی لُٹ گئی ہماری
اب کس کی امید ، کون آئے
اب شام بھی بجھ چلی ہماری
کچھ تھا کہ اٹھا رہا سر اپنا
دیکھو تو کج کلہی ہماری
افسانے سنے جو اس کی چُپ میں
کہتی رہی خامشی ہماری