شہباز شریف، عمران خان اور مستقبل

جاسم محمد

محفلین
شہباز شریف، عمران خان اور مستقبل
حبیب اکرم

اکتوبر دو ہزار انیس کی بات ہے کہ آسمانِ سیاست پر خان صاحب کا ستارہ اپنے عروج سے گزر کر زوال کے برج میں داخل ہو چکا تھا۔ اگرچہ حکومت کو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے تھے لیکن کارپردازانِ مملکت یکسو تھے کہ انہوں نے جو سوچا تھا عمران خان اس کے عشرِ عشیر بھی نہیں نکلے۔ نالائقی چہار سو اپنے پنجے گاڑ رہی تھی اور سدھار کے سبھی امکان ختم ہو چکے تھے۔ فیصلہ ہو چکا تھا کہ تحریک انصاف کا ایک حصہ ٹوٹ کر مسلم لیگ ن سے جا ملے اور شہباز شریف ان ٹوٹے ہوئے تاروں کو اپنی آغوش میں لے کر حکومت بنا لیں۔ یہ تجویز لندن تک پہنچی تو قرار پایا کہ شہباز شریف حکومت بناکر اسمبلیاں توڑ دیں گے اورایک نیا الیکشن برپا کردیا جائے گا۔ ذہنوں میں کلبلاتا خیال اندرونی مشوروں کی منزل طے کرتا زبانوں پر آیا اور وہاں سے پہلے قلم کی نوک اور پھر اخبار کے صفحوں تک آن پہنچا۔ ایسے میں کسی نے پوچھا، جب الیکشن ہوگا تو کس کے خلاف لڑا جائے گا؟ جواب آیا، سبھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف لڑیں گی۔ پوچھنے والے نے کہا، جناب یہ تو آپ کا خیال ہے، جب اقتدار سے نکلے ہوئے عمران خان، زخم خوردہ نواز شریف اور چڑکر بیٹھے زرداری صاحب میدان میں اتریں گے تو الیکشن آپ کے خلاف لڑا جائے گا۔ کارپردازان اس نکتے کو فراموش کیے ہوئے تھے۔ بات‘ جو دھویں اڑاتی بھاگ رہی تھی‘ یکدم رک گئی۔ آسمانوں پر چاند سورج نے دوبارہ سرجوڑ لیے۔ ابھی کچھ فیصلہ نہ ہوا تھاکہ کورونا پاکستان پہنچ گیا اور ساتھ ہی شہباز شریف بھی۔ کورونا خان صاحب کا سہارا بن گیا اور شہباز شریف بے سہارا ہوتے چلے گئے۔
ستمبر دو ہزار بیس میں کورونا میں کچھ کمی آئی تو نواز شریف نے لندن سے آواز اٹھانا شروع کردی۔ اتنی دیر میں خان صاحب کچھ جم چکے تھے‘ انہوں نے اس منصوبے کے اہم ترین فرد یعنی شہباز شریف کو جیل میں دھکیل دیا۔ یہ منصوبہ ناکام ہوا تو شہباز شریف کے بغیر ہی پی ڈی ایم وجود میں آگئی۔ اس نے ہمیشہ رہنے والے چاند پر کمند ڈالی تو آسمانوں میں دوبارہ تحرک ہوا۔ یوں بھی تحریک انصاف کی بے مثال نالائقی پر ایک سال مزید گزرچکا تھا۔ اب کہ شاہد خاقان عباسی کووہی کچھ پیش کیا گیا جو صرف ایک سال پہلے شہبازشریف کے سامنے رکھا گیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے شرط رکھ دی کہ پہلے وہ لوگ پریس کانفرنس کریں جو تحریک انصاف سے ٹوٹنا چاہتے ہیں، اس کے بعد وہی لوگ اسمبلی میں عدم اعتماد لائیں تو مسلم لیگ ن اس راستے پر چلنے کا سوچے گی۔ لین دین کا یہ معاملہ نوازشریف کے علم میں آیا تو انہوں نے صاف انکار کردیا کہ انہیں پی ڈیم جیتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ دسمبر دوہزار بیس میں لاہور کا جلسہ ناکام ہوا تو بہت کچھ بدل گیا۔ شاہد خاقان عباسی طاقت کی اس مساوات سے باہر ہوگئے اور آصف علی زرداری نے بھی لہجہ بدل ڈالا۔ شہبازشریف کا ستارہ ایک بار پھر عروج کی طرف چل پڑا۔
پی ڈی ایم کے زورپر شہباز شریف نے یہ طے کروا لیا ہے کہ نوازشریف خاموش رہیں گے توان کی جماعت کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ ضمنی الیکشنوں میں یکے بعد دیگر مسلم لیگ ن کی جیت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نوازشریف ملک سے باہر بھی رہیں توان کی جماعت الیکشن جیت سکتی ہے۔ اسمبلیوں کو توڑکر نئے الیکشن کروانے کی ضد بھی نوازشریف چھوڑ چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف اپنے انجام تک خود ہی پہنچے تاکہ اسے اگلے الیکشن میں ٹکٹ لینے والا ڈھونڈے نہ ملے۔ سربلند بھی سوچے بیٹھے ہیں کہ ملکی نظام نے نالائقوں کے اس تاریخی اجتماع کے راستے میں ایسے روڑے اٹکا دیے ہیں کہ اب اس سے زیادہ بربادی کوئی چاہے بھی تونہیں ہوسکتی، اس لیے اس حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے دیا جائے تاکہ یہ باہر جاکر گلہ کرنے کے بھی قابل نہ رہے۔ ان حالات میں شہبازشریف کی ضمانت گویا دو ہزار تئیس کے انتخابات میں وزیراعظم کے 'متفقہ‘ امیدوار کا اعلان ہی تھا یا یوں کہیے کہ خان صاحب نے اسے یوں سمجھا۔ اسی لیے سعودی عرب سے واپس آکر انہوں نے جو پہلا اجلاس کیا‘ اس میں شہبازشریف کی مشکیں کسنے کیلئے حدیبیہ پیپرزکے پرانے کیس کی نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا۔
خان صاحب کو اچھی طرح علم ہے کہ مسلم لیگ ن میں ان کے اصل حریف شہبازشریف ہیں۔ مریم نوازسے انہوں نے ایک دن بھی خطرہ محسوس نہیں کیا بلکہ اپنی جماعت کے ایک اجلاس میں تو وہ مسکراتے ہوئے یہاں تک کہہ گزرے کہ 'مریم نواز مسلم لیگ ن میں تحریک انصاف کی طاقت ہیں‘۔ کسی درجے میں یہ بات ٹھیک بھی ہے کہ اپنی تمام تر تگ و دو کے باوجود وہ مسلم لیگ ن میں ایسی شخصیت نہیں بن پائیں جس کے ساتھ معاملہ کیا جاسکے۔ شہبازشریف نے جیل جانے کے باوجود توازن ہاتھ سے نہیں جانے دیا جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت و قبولیت دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگلا الیکشن جیتنے کیلئے انہیں صرف یہ کرنا ہے کہ اس وقت تک مسلم لیگ ن خاموش رہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب نوازشریف کو وہ سب کچھ لفظ بلفظ معلوم ہو جو طے ہوا ہے‘ مگر خان صاحب کو بھی سیاست ہی توکرنی ہے۔ انہوں نے شہبازشریف کے معاملے میں جو راستہ اختیار کیا ہے وہ بھی دلچسپ ہے۔ بالا طاقتوں کے مقابلے میں انہوں نے اپنی بساط بچھا لی ہے۔ اس پر پہلی چال الیکشن اصلاحات ہیں اور دوسری چال حدیبیہ۔ وہ الیکشن اصلاحات نہیں کرپائیں گے اس لیے آئندہ ان کے پاس دھاندلی دھاندلی پکارنے کا آپشن بھی رہے گا۔ حدیبیہ کے ذریعے وہ شہبازشریف کو پکڑنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اس معاملے میں اب انہیں وہ مدد نہیں مل سکتی جو ماضی میں ملتی رہی۔ شہباز شریف کے خلاف انہیں اپنا کوئی ماتحت ادارہ بھی استعمال کرنا پڑا تووہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے کرگزریں گے۔ شہباز شریف کے بارے میں ان کا ہدف ہے کہ آئندہ الیکشن تک انہیں اس طرح پھنسا دیا جائے کہ مسلم لیگ ن کوان کے بغیر ہی انتخابات کی جنگ لڑنی پڑے‘ مگر اس بارکوئی ناگہانی ہوگئی تو الگ بات‘ ورنہ متبادل منصوبہ بھی مکمل تیار ہے۔
متبادل منصوبہ ہے کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی چونتیس ایسی نشستیں ہیں جہاں سے پاکستان پیپلزپارٹی جیت سکتی ہے۔ اگر شہبازشریف ایسے پھنس جائیں کہ نکل نہ سکیں تو بلاول بھٹو زرداری ابھرآئیں گے۔ کراچی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست پر جوکچھ ہوا اس میں آنے والے وقت کی متبادل جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔ اگر یہی صورت کراچی کی مزید چودہ نشستوں پرپیدا ہوگئی یعنی یہ تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل گئیں توخان صاحب واپس دوہزار تیرہ یا اس سے بھی کمتر کسی پوزیشن پرپہنچ جائیں گے۔ شاید یہی صورت ان کیلئے بھی قابل قبول ہو کیونکہ جوکچھ وہ کرچکے ہیں انہیں پیپلزپارٹی کے سوا کوئی محفوظ راستہ نہیں دے سکتا۔
تحریک انصاف کی حکومت کو دوہزار اٹھارہ میں مختلف حوالوں سے حمایت کی صورت جو کچھ میسر تھا، وہ سب یہ اکتوبر دوہزار انیس تک کھو چکی تھی۔ اب اس کا سہارا کورونا ہے یا صرف یہ کہ اسے کوئی گرانا نہیں چاہتا۔ کوئی انہونی ہوجائے تو الگ بات ہے ورنہ میری نظر میں آسمان کی طرف منہ کرکے پڑی اس بے بس حکومت کی تکنیکی موت ہوچکی ہے۔ ہوش و حواس سے عاری اس بیچاری کو یہ بھی نہیں پتاکہ آسمانوں میں جب فیصلے ہوجاتے ہیں توکیا ہوتا ہے۔ یہ کسی قابل ہوتو چودھری شجاعت حسین سے ہی پوچھ لے کہ ان کا حال کیا ہوا تھا‘ جب انہیں بتایا گیا تھاکہ دوہزار آٹھ کا الیکشن اگر ق لیگ نے جیتا تواسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ حالات اب بھی اسی طرف جاتے محسوس ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کوکچھ ہی دنوں میں یہ پتا چل جائے گاکہ شہبازکو پرواز سے روکنے والے تو اب چڑیا بھی نہیں پکڑسکتے۔ شہباز کی اگر قسمت خراب نہ ہو توفی الحال اسے اڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اکتوبر دو ہزار انیس کی بات ہے کہ آسمانِ سیاست پر خان صاحب کا ستارہ اپنے عروج سے گزر کر زوال کے برج میں داخل ہو چکا تھا۔
یہ کیسا ستارہ ہے جو ۲۲ سال بعد حکومت ملنے کے صرف ایک سال بعد ہی غروب ہو جاتا ہے؟ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ستارہ ہے جو ۳۰ سال میں بار بار حکومتیں ملنے پر بھی غروب ہونے کا نام نہیں لیتا؟ کہیں اس ستارہ کا نام بغض عمران تو نہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
اتنی دیر میں خان صاحب کچھ جم چکے تھے‘ انہوں نے اس منصوبے کے اہم ترین فرد یعنی شہباز شریف کو جیل میں دھکیل دیا۔
اگر یہ بات آپ نے حبیب صاحب کے حوالے سے کی ہے تو میں اس کا گواہ ہوں کہ وہ ایسی طبیعت کے مالک نہیں۔ میں ذاتی طور پر انہیں بہت قریب سے جانتا ہوں۔
اچھا حبیب اکرم سے میری طرف سے پوچھئے گا کہ اگر شہباز شریف کو جیل میں عمران خان نے دھکیلا تھا تو ایسا عین پی ڈی ایم کی تحریک سے قبل کیسے ہو گیا؟ کیونکہ اس سے کئی ماہ پہلے اسی مقدمہ میں ان کو لوہار ہائی کورٹ سے ضمانت پہ ضمانت مل رہی تھی۔ پھر اچانک شہباز شریف نے ضمانت کی درخواست واپس لے لی اور نیب نے ان کو گرفتار کر لیا۔
NAB arrests Shahbaz Sharif from LHC
اس لئے مجھے شبہ ہے کہ شہباز شریف اپنی مرضی سے جیل گئے تھے۔ اس دوران مریم نواز اور دیگر پی ڈی ایم جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ تحریک چلاتے رہے۔ لیکن انہوں نے ضمانت کی کوئی درخواست نہیں دی۔ اور اب پی ڈی ایم ٹھس ہونے کے بعد وہ لندن جانے کی درخواست دیتے ہیں جو فورا منظور کر لی جاتی ہے۔ جس سے حکومت کو شہباز شریف اور فوج کے مابین ڈیل ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ اور وہ بذریعہ ایف آئی اے ان کو لندن فرار ہونے سے روک دیتے ہیں۔
 
یہ کیسا ستارہ ہے جو ۲۲ سال بعد حکومت ملنے کے صرف ایک سال بعد ہی غروب ہو جاتا ہے؟ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ستارہ ہے جو ۳۰ سال میں بار بار حکومتیں ملنے پر بھی غروب ہونے کا نام نہیں لیتا؟ کہیں اس ستارہ کا نام بغض عمران تو نہیں؟
ڈونکی راجہ کا نکما پن تاریخی ہے
عمران حمارہ
نالائقی کا استعارہ
نا اہل اور آوارہ
اتوں سیمنٹ اندروں گارہ
ھن جاندا پیا وچارہ
 
Top