شہداء کی نعشیں
شہداء کی نعشوں کو یہ منظوم خراجِ عقیدت اور ان کے شہید جسموں سے اٹھتی ہوئی پکار کو الفاظ روپ کوئی چار عشرے قبل اس وقت دیا گیا تھا جب مصر میں سیّد قطبؒ سمیت اخوان المسلمون کے تین عظیم راہنماؤں کو پھانسی دی گئی تھی۔ راہِ حق پر چلنے والوں کی شہادتوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
شاعر : نعیم صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ
ادب سے اس نعش کو اتارو
رسن کا حلقہ ادب سے کھولو
دبے دبے پاؤں، ہولے ہولے، سبک سبک طرز سے چلو یہاں
ادب سے لو سانس، دھیما دھیما، بلند آواز میں نہ بولو
تمام دیوار و در سجاؤ، تمام ماحول کو سنوارو
درود پڑھ کر، سلام کہہ کر، یہاں پہ نظرِ وفا گزارو!
ادب سے اس نعش کو اتارو!
یہ نعش زندہ شہید کی ہے
شہید!... جس نے اذیتوں سے مئے تمنا کشید کی ہے
شہید!... جس نے بدن کے بدلے حیاتِ دائم خرید کی ہے
یہ پاک میت ہے ایک سورج! ضیا یہ صبحِ امید کی ہے
شہید کی نعش کے ادب میں
تمام تاریخ رک گئی ہے
زماں کی گردش ٹھہر گئی ہے
ہیں علم و فن دست بستہ حاضر
شہید کی نعش کے ادب میں تمام تہذیب جھک گئی ہے
وہ روحِ سقراط آرہی ہے، جلو میں شاگرد اپنے لے کر
ادھر سے دیکھو حسینؓ بسمل!
یہ ابن حنبلؒ، امام مالکؒ، اُدھر جنابِ ابو حنیفہؒ!
کسی کے ہاتھوں میں تیغ براں کوئی لیے خامۂ و صحیفہ!
سدا بہار اپنے زخم لے کر، پرو کے زخموں کے ہار لائے
مری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں
فلک سے قدسی اتر رہے ہیں
پرے وہ باندھے ہوئے مسلسل صلیب گہہ سے گزر رہے ہیں
وہ حوریں آئیں اٹھائے پرچم
نئے شہیدوں کا خیر مقدم حکایتِ جہدِ آدمی کا یہ نعش عنواں بن گئی ہے
یہ جانِ ایماں بن گئی ہے! یہ حشر ساماں بن گئی ہے
ادب سے اس نعش کو اتارو!
ایک... دو... تین... تازہ لاشیں
جیسے تربوز کی کسی نے چھری سے کاٹی ہوں تازہ قاشیں
نئی نئی فصل زندگی کی!
ہر ی بھری فصل زندگی کی! ابھی ابھی پل میں کٹ گئی ہے!
یہ تین لاشیں!
اور ان کے پیچھے ہزاروں لاشیں!
میرے چمن کی یہ تین شاخیں کٹی پڑی ہیں
یہ تین غنچے مسل گئے ہیں
مگر ذرا نقطہ نظر کو مرے رفیقو! بدل کے دیکھو
یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
ہماری تاریخ کے چمن میں، ہوائے فصلِ بہار آئی
یہ شاخِ ایثارِ مومنانہ، نئے سرے سے نکھار آئی
مشامِ جاں ہو رہا ہے تازہ کہ نگہتِ کوئے یار آئی
قطارِ اشتر ہوں جیسے بادل، نسیم تھامے مہار آئی
لہو کے برکھا میں بھیگی بھیگی، بہار، مثلِ نگار آئی
نوید لے اڑی جو بلبل، زمانے بھر میں پکار آئی
کنارِ مشہد کھڑا ہوں ساکت
یہاں پہ یادِحبیب آئی! وہ آئی اور بار بار آئی
یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ چوبِ خشک صلیب خونیں، یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ شاخِ شمشیر ظلم آگئیں، یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ تین غنچے مہک رہے ہیں!
یہ تین تارے چمک رہے ہیں!
یہ تین موتی دمک رہے ہیں!
یہ تین ساغر چھلک رہے ہیں!
یہ تینوں، بامِ حرم کے طائر جو تیر کھا کے پھڑک رہے ہیں!
یہ پیاری لاشیں!
ہماری کل زندگی کا حاصل!
یہ زندگی... یہ فسادِ پیہم کہ جس میں کوئی سکوں نہیں ہے
تمام سود و زیاں کے چکر! کہیں فروغِ جنوں نہیں ہے
یہ زندگی!... یہ جمودِ دائم کہ جس میں اک موجِ خوں نہیں ہے!
یہ زندگی!... یہ عذابِ دوزخ کہ جس میں سوزِ دروں نہیں ہے
یہ تین لاشیں!
مجھ ایسے لاکھوں کی زندگی سے گراں بہا تر!
ہٹو، کرائے کے چوبیدارو!
مجھے قدم ان کے چومنے دو!
میرے عقیدت کو جھومنے دو!
یہ تین لاشیں! یہ پیاری لاشیں
اور ان کے پیچھے، کئی صدیوں کے طویل صحرا میں لاکھوں لاشیں!
طویل صحرا... کہ جن میں چھایا ہوا دھندلکا
رہِ محبت کے سارے راہی
تمام ساتھی! تمام اخواں! یہ عاشقوں کی برادری ہے!
سبھی کا ایک رشتہ اخوت!
سبھی کی ہے ایک سی حکایت!
سبھی کی ایک مشترک روایت!
کسی کی میت وہاں گری تھی! کسی کی میت یہاں گری ہے!
یہ میتیں ہیں ہماری دولت!
انہی سے تحریکِ زندگی ہے!
.........
یہ تین لاشیں!
انہی کی جانب امڈ پڑی ہیں فضاؤں سے صبح کی شعاعیں
کوئی سنہری، کوئی روپہلی!
کہ جیسے انجیل کی زباں میں کنواریوں کے حسین جھرمٹ
کہ جیسے پنہاریاں بہم ہوں، گھڑے لیے، گاگریں اٹھائے
کہ جیسے مشہد ہو کوئی چشمہ!
کہ جیسے مقتل ہو کوئی پنگھٹ
تمام انوار صبح نو کے، یہیں پہ آکے سمٹ رہے ہیں
تمام چہرے صداقتوں کے یہیں پہ پردے الٹ رہے ہیں
سنو، سنو! ظلمتوں کے مارو!
یہیں سے کچھ روشنی ملے گی
وگرنہ ہر سمت ہیں اندھیرے
یہ سب اندھیروں کی راجدھانی
یہ جیتے اور جاگتے اندھیرے
یہ فتنہ گر، سوچتے اندھیرے
جو ہر کرن پہ جھپٹ رہے ہیں
وجودِ وضو سے عذاب ان کو کہ دل ہی میں وہ کٹ رہے ہیں
وہ جتنے جتنے ہوئے گھنیرے، وہ اتنے اتنے ہی گھٹ رہے ہیں
بہم گر سب لپٹ رہے ہیں
مگر یہی دار وہ افق ہے، جہاں سے پھوٹا نیا اجالا
شعاعوں کا سیل آرہا ہے، نہ روک پائے جسے ہمالا
سحر تو ہوگی، ضرور ہوگی، یہی ہے قانونِ حق تعالٰی
...............
اتار لو اب یہ تین لاشیں، بہ فرشِ سبزہ اٹھا کہ رکھو
ادب سے ان کو سجا کے رکھو
بلاؤ اس مردِ آہنی کو
دکھاؤ اس مردِ آہنی کو
اسے پکارو
کنارِ بامِ بلند آکر، وہ کشتگانِ وفا کو دیکھے
وہ اہلِ صدق و صفا کو دیکھے، وہ اہلِ صبر و رضا کو دیکھے
فنا کا پیغام دینے والا، اب ان کی شانِ بقا کو دیکھے
وہ جانشینِ فراعنہ ہے یہاں وہ نورِ خدا کو دیکھے
وہ روحِ موسیٰ دے دستِ بیضا میں یاں قضا کے عصا کو دیکھے
وہ سب رسن بازیوں پہ غالب کلیم کے اژدہا کو دیکھے
اسے بلاؤ... بڑی ضیافت کا ہے یہ ساماں
اسے بلاؤ... یہ خوانِ یغما! یہ لحمِ انساں!
اسے بلاؤ... نکال لے اپنے سارے ارماں!
اسی کی خاطر یہ بے گناہوں کے خوں کا ساغر بھرا گیا ہے
اسی کی خاطر رکھا گیا ہے!
اسے بلاؤ! اسے اکہو، آکے اس کو پی لے!
اسے یہ ساغر اٹھانا ہوگا
لبوں سے اس کو لگانا ہوگا
سرور و کیف اس کا پانا ہوگا
اسی طے ظلم و ستم کے خوشے، چنے گئے خوب پکے پکے!
اسی کے خدام نے نچوڑے
اسے پکارو! یہ جام آبِ حیات پی لے!
اگر ہو ممکن تو اس کو پی کر ہزار ہا سال جی لے!
اجل سے چھپ کر، لحد سے بچ کر، جو راستہ مل سکے، وہی لے لے!
حفاظتِ جاہ کی یہ چالیں
عمرِ فانی کے بودے حیلے!
..................
اسے یہ کہہ دو!
وہ ان شہیدوں کی میتوں کو، کسی بھی منڈی میں بیچ ڈالے
یہ میتیں جو گراں بہا ہیں!
اور ان کے ہمراہ سب دعائیں، ان گنت نوحے اور نالے،
بہت سے گاہک ملیں گے اس کو!
لہو مسلماں کا بک رہا ہے، تو ایسی دولت خریدنے کو بتانِ کافر کی کیا کمی ہے؟
پڑوس ہی میں یہود بھی ہیں
بہ سمتِ مشرق ہنود بھی ہیں
حبش کے اہلِ صلیب بھی ہیں
کسی کے قدموں میں ڈھیر کرکے جو کچھ منافع ملے کما لے!
جہاں اسلام اور تڑپے! کچھ اور ملت کا دل دکھالے
جو فائدہ مل سکے، اٹھالے!
دو دور دیکھو!
پرے کہیں، کوہِ قاف سے بھی!
وہ لال دیووں کی بستیاں ہیں!
وہ دیو جن کو نہیں گوارا، کہیں بھی اسلام سر اٹھائے
کہیں چھڑے ذکرِ دینِ حق کا، کہیں محمدﷺ کا نام آئے
کسی وطن میں کوئی مغنی ، ترانہ الہام کا سنائے
جنہوں نے اک پوری قومِ مسلم کو اپنا نغمہ بنا لیا ہے
کہاں سمرقند اور بخارا!
کہاں ہوئے گم!
مفسروں اور محدثوں کی قدیم محفل اجڑ گئی ہے!
تھیں مسجدیں بھی، مدرسے بھی! بنا اب ان کی اکھڑ گئی ہے
پرانی باتوں کا ذکر اب کیا!
نئے نئے تجربے، مناسب!
یہ تینوں لاشیں ! اٹھاؤ، واں جا کے نظر کردو!
کہ لال دیووں کی دوستی کا، نوازشوں کا،عنایتوں کا
یہ خوب ہے ہدیۂ تشکر!
یہ پہلی قسطِ ادائیگی ہے!
یہ میتیں، یہ لہو، یہ آنسو، یہ آہیں، یہ نالے یہ زخم، گھاؤ
سمیٹ لے جاؤ دولتِ دل، خزانہ ہائے خودی اٹھاؤ
یہ آیتیں بھی، روایتیں بھی!
تمام ملت کی غایتیں بھی!
سبھی عقیدے، سبھی تصور، سبھی قوانین، سبھی شعائر
اٹھاؤ، لے جا کر نذر کردو!
ہمارے گھر میں، خود اپنے گھر کی، کوئی نشانی نہ رہنے پائے!
کسی کواس پر نہ بولنے دو! کوئی کہانی نہ کہنے پائے!
خدا پرستوں کے خوں کے بدلے!
بتانِ کافر کی دلنوازی
عجب ہے یہ شانِ کارسازی!
...............
وہ شیخ بنّا کاجسم کشتہ
یہ انگلیاں سن ہیں ان سے ہرگز، کوئی بھی تحریر اب نہ ہوگی!
یہ ہونٹ ساکت ہوئے ہیں، ان سے کوئی بھی تقریر اب نہ ہوگی!
کتابِ حق کی یہ بزمِ ملت، وہ صاف تفسیر اب نہ ہوگی!
کبھی بھی قصرِ شہید میں وارد، خدا کی تقدیر اب نہ ہوگی!
’’خدا‘‘ یہ صد شوق بن کے رہیے، ذرابھی تغیر اب نہ ہو گی!
مگر یہ لاشیں، یہ تین لاشیں!
ہزاروں لاشیں!
عجیب سا ہے سکوت ان کا
سکوت بھی اک پیام سا ہے
یہ معجزانہ سکوت ان کا، کہ جیسے طوفاں اٹھ رہا ہو!
کہ جیسے اک زلزلہ سا آئے، کہ جیسے محشر سا اک بپا ہو!
..................
وہ شیخ بنّا کا کہ بنا پیارا
وہ قطب تارا
نہ وہ مرا تھا،نہ یہ مریگا
نہ وہ مٹا تھا، نہ یہ مٹے گا
نہ شیخ بنا ٹلا تھا حق سے ، نہ قطب تارا کبھی ٹلے گا
شہید سارے!
دلوں میں آباد ہوگئے ہیں
جہاں کہیں سے ضمیر زندہ، ضمیرِ زندہ میں بس رہے ہیں
فنا سے آزاد ہو گئے ہیں!
تمام صیاد ختم ہونگے!
یہ سارے جنگلے، یہ کل فصلیں، یہ سب صلیبیں، یہ سب سلاسل!
یہ تخت و تاج و نشان و پرچم
یہ قصر و بام اور مہر و خاتم
تغیّرِوقت، تیز دھارا
بہائے لے جا رہا ہے ان کو
جدھر مشیت کا ہے اشارہ
کسے خبر کب ہو شہر یارو، حسابِ جور و جفا تمہارا
کبھی تو سوچو کہ کیا ہے آخر، تمام جورو جفا کا حاصل!
پکارتی ہیں یہ تازہ لاشیں، یہ سب کا سب ہے طلسمِ باطل
نصیب میں تخت ہو کہ تختہ
گرے گا ہر کوئی لاش بن کر، قتیل کے ساتھ ، ساتھ قاتل
ہے قبر سارے سفر کی منزل!
پکارتی ہیں یہ تازہ لاشیں!
..................
یہ تازہ لاشیں!
بڑے ادب سے انہیں اتارو!
دبے دبے پاؤں،ہولے ہولے ، سبک سبک ، طرز سے چلو
یہاں! درود پڑھ کر، سلام کہہ کر، یہاں پہ نذر گزارو!
بڑے ادب سے انہیں اتارو!
یہ میتیں ہیں ہماری دولت!
شاعر: نعیم صدیقیؒ
شہداء کی نعشوں کو یہ منظوم خراجِ عقیدت اور ان کے شہید جسموں سے اٹھتی ہوئی پکار کو الفاظ روپ کوئی چار عشرے قبل اس وقت دیا گیا تھا جب مصر میں سیّد قطبؒ سمیت اخوان المسلمون کے تین عظیم راہنماؤں کو پھانسی دی گئی تھی۔ راہِ حق پر چلنے والوں کی شہادتوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
شاعر : نعیم صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ
ادب سے اس نعش کو اتارو
رسن کا حلقہ ادب سے کھولو
دبے دبے پاؤں، ہولے ہولے، سبک سبک طرز سے چلو یہاں
ادب سے لو سانس، دھیما دھیما، بلند آواز میں نہ بولو
تمام دیوار و در سجاؤ، تمام ماحول کو سنوارو
درود پڑھ کر، سلام کہہ کر، یہاں پہ نظرِ وفا گزارو!
ادب سے اس نعش کو اتارو!
یہ نعش زندہ شہید کی ہے
شہید!... جس نے اذیتوں سے مئے تمنا کشید کی ہے
شہید!... جس نے بدن کے بدلے حیاتِ دائم خرید کی ہے
یہ پاک میت ہے ایک سورج! ضیا یہ صبحِ امید کی ہے
شہید کی نعش کے ادب میں
تمام تاریخ رک گئی ہے
زماں کی گردش ٹھہر گئی ہے
ہیں علم و فن دست بستہ حاضر
شہید کی نعش کے ادب میں تمام تہذیب جھک گئی ہے
وہ روحِ سقراط آرہی ہے، جلو میں شاگرد اپنے لے کر
ادھر سے دیکھو حسینؓ بسمل!
یہ ابن حنبلؒ، امام مالکؒ، اُدھر جنابِ ابو حنیفہؒ!
کسی کے ہاتھوں میں تیغ براں کوئی لیے خامۂ و صحیفہ!
سدا بہار اپنے زخم لے کر، پرو کے زخموں کے ہار لائے
مری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں
فلک سے قدسی اتر رہے ہیں
پرے وہ باندھے ہوئے مسلسل صلیب گہہ سے گزر رہے ہیں
وہ حوریں آئیں اٹھائے پرچم
نئے شہیدوں کا خیر مقدم حکایتِ جہدِ آدمی کا یہ نعش عنواں بن گئی ہے
یہ جانِ ایماں بن گئی ہے! یہ حشر ساماں بن گئی ہے
ادب سے اس نعش کو اتارو!
ایک... دو... تین... تازہ لاشیں
جیسے تربوز کی کسی نے چھری سے کاٹی ہوں تازہ قاشیں
نئی نئی فصل زندگی کی!
ہر ی بھری فصل زندگی کی! ابھی ابھی پل میں کٹ گئی ہے!
یہ تین لاشیں!
اور ان کے پیچھے ہزاروں لاشیں!
میرے چمن کی یہ تین شاخیں کٹی پڑی ہیں
یہ تین غنچے مسل گئے ہیں
مگر ذرا نقطہ نظر کو مرے رفیقو! بدل کے دیکھو
یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
ہماری تاریخ کے چمن میں، ہوائے فصلِ بہار آئی
یہ شاخِ ایثارِ مومنانہ، نئے سرے سے نکھار آئی
مشامِ جاں ہو رہا ہے تازہ کہ نگہتِ کوئے یار آئی
قطارِ اشتر ہوں جیسے بادل، نسیم تھامے مہار آئی
لہو کے برکھا میں بھیگی بھیگی، بہار، مثلِ نگار آئی
نوید لے اڑی جو بلبل، زمانے بھر میں پکار آئی
کنارِ مشہد کھڑا ہوں ساکت
یہاں پہ یادِحبیب آئی! وہ آئی اور بار بار آئی
یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ چوبِ خشک صلیب خونیں، یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ شاخِ شمشیر ظلم آگئیں، یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ تین غنچے مہک رہے ہیں!
یہ تین تارے چمک رہے ہیں!
یہ تین موتی دمک رہے ہیں!
یہ تین ساغر چھلک رہے ہیں!
یہ تینوں، بامِ حرم کے طائر جو تیر کھا کے پھڑک رہے ہیں!
یہ پیاری لاشیں!
ہماری کل زندگی کا حاصل!
یہ زندگی... یہ فسادِ پیہم کہ جس میں کوئی سکوں نہیں ہے
تمام سود و زیاں کے چکر! کہیں فروغِ جنوں نہیں ہے
یہ زندگی!... یہ جمودِ دائم کہ جس میں اک موجِ خوں نہیں ہے!
یہ زندگی!... یہ عذابِ دوزخ کہ جس میں سوزِ دروں نہیں ہے
یہ تین لاشیں!
مجھ ایسے لاکھوں کی زندگی سے گراں بہا تر!
ہٹو، کرائے کے چوبیدارو!
مجھے قدم ان کے چومنے دو!
میرے عقیدت کو جھومنے دو!
یہ تین لاشیں! یہ پیاری لاشیں
اور ان کے پیچھے، کئی صدیوں کے طویل صحرا میں لاکھوں لاشیں!
طویل صحرا... کہ جن میں چھایا ہوا دھندلکا
رہِ محبت کے سارے راہی
تمام ساتھی! تمام اخواں! یہ عاشقوں کی برادری ہے!
سبھی کا ایک رشتہ اخوت!
سبھی کی ہے ایک سی حکایت!
سبھی کی ایک مشترک روایت!
کسی کی میت وہاں گری تھی! کسی کی میت یہاں گری ہے!
یہ میتیں ہیں ہماری دولت!
انہی سے تحریکِ زندگی ہے!
.........
یہ تین لاشیں!
انہی کی جانب امڈ پڑی ہیں فضاؤں سے صبح کی شعاعیں
کوئی سنہری، کوئی روپہلی!
کہ جیسے انجیل کی زباں میں کنواریوں کے حسین جھرمٹ
کہ جیسے پنہاریاں بہم ہوں، گھڑے لیے، گاگریں اٹھائے
کہ جیسے مشہد ہو کوئی چشمہ!
کہ جیسے مقتل ہو کوئی پنگھٹ
تمام انوار صبح نو کے، یہیں پہ آکے سمٹ رہے ہیں
تمام چہرے صداقتوں کے یہیں پہ پردے الٹ رہے ہیں
سنو، سنو! ظلمتوں کے مارو!
یہیں سے کچھ روشنی ملے گی
وگرنہ ہر سمت ہیں اندھیرے
یہ سب اندھیروں کی راجدھانی
یہ جیتے اور جاگتے اندھیرے
یہ فتنہ گر، سوچتے اندھیرے
جو ہر کرن پہ جھپٹ رہے ہیں
وجودِ وضو سے عذاب ان کو کہ دل ہی میں وہ کٹ رہے ہیں
وہ جتنے جتنے ہوئے گھنیرے، وہ اتنے اتنے ہی گھٹ رہے ہیں
بہم گر سب لپٹ رہے ہیں
مگر یہی دار وہ افق ہے، جہاں سے پھوٹا نیا اجالا
شعاعوں کا سیل آرہا ہے، نہ روک پائے جسے ہمالا
سحر تو ہوگی، ضرور ہوگی، یہی ہے قانونِ حق تعالٰی
...............
اتار لو اب یہ تین لاشیں، بہ فرشِ سبزہ اٹھا کہ رکھو
ادب سے ان کو سجا کے رکھو
بلاؤ اس مردِ آہنی کو
دکھاؤ اس مردِ آہنی کو
اسے پکارو
کنارِ بامِ بلند آکر، وہ کشتگانِ وفا کو دیکھے
وہ اہلِ صدق و صفا کو دیکھے، وہ اہلِ صبر و رضا کو دیکھے
فنا کا پیغام دینے والا، اب ان کی شانِ بقا کو دیکھے
وہ جانشینِ فراعنہ ہے یہاں وہ نورِ خدا کو دیکھے
وہ روحِ موسیٰ دے دستِ بیضا میں یاں قضا کے عصا کو دیکھے
وہ سب رسن بازیوں پہ غالب کلیم کے اژدہا کو دیکھے
اسے بلاؤ... بڑی ضیافت کا ہے یہ ساماں
اسے بلاؤ... یہ خوانِ یغما! یہ لحمِ انساں!
اسے بلاؤ... نکال لے اپنے سارے ارماں!
اسی کی خاطر یہ بے گناہوں کے خوں کا ساغر بھرا گیا ہے
اسی کی خاطر رکھا گیا ہے!
اسے بلاؤ! اسے اکہو، آکے اس کو پی لے!
اسے یہ ساغر اٹھانا ہوگا
لبوں سے اس کو لگانا ہوگا
سرور و کیف اس کا پانا ہوگا
اسی طے ظلم و ستم کے خوشے، چنے گئے خوب پکے پکے!
اسی کے خدام نے نچوڑے
اسے پکارو! یہ جام آبِ حیات پی لے!
اگر ہو ممکن تو اس کو پی کر ہزار ہا سال جی لے!
اجل سے چھپ کر، لحد سے بچ کر، جو راستہ مل سکے، وہی لے لے!
حفاظتِ جاہ کی یہ چالیں
عمرِ فانی کے بودے حیلے!
..................
اسے یہ کہہ دو!
وہ ان شہیدوں کی میتوں کو، کسی بھی منڈی میں بیچ ڈالے
یہ میتیں جو گراں بہا ہیں!
اور ان کے ہمراہ سب دعائیں، ان گنت نوحے اور نالے،
بہت سے گاہک ملیں گے اس کو!
لہو مسلماں کا بک رہا ہے، تو ایسی دولت خریدنے کو بتانِ کافر کی کیا کمی ہے؟
پڑوس ہی میں یہود بھی ہیں
بہ سمتِ مشرق ہنود بھی ہیں
حبش کے اہلِ صلیب بھی ہیں
کسی کے قدموں میں ڈھیر کرکے جو کچھ منافع ملے کما لے!
جہاں اسلام اور تڑپے! کچھ اور ملت کا دل دکھالے
جو فائدہ مل سکے، اٹھالے!
دو دور دیکھو!
پرے کہیں، کوہِ قاف سے بھی!
وہ لال دیووں کی بستیاں ہیں!
وہ دیو جن کو نہیں گوارا، کہیں بھی اسلام سر اٹھائے
کہیں چھڑے ذکرِ دینِ حق کا، کہیں محمدﷺ کا نام آئے
کسی وطن میں کوئی مغنی ، ترانہ الہام کا سنائے
جنہوں نے اک پوری قومِ مسلم کو اپنا نغمہ بنا لیا ہے
کہاں سمرقند اور بخارا!
کہاں ہوئے گم!
مفسروں اور محدثوں کی قدیم محفل اجڑ گئی ہے!
تھیں مسجدیں بھی، مدرسے بھی! بنا اب ان کی اکھڑ گئی ہے
پرانی باتوں کا ذکر اب کیا!
نئے نئے تجربے، مناسب!
یہ تینوں لاشیں ! اٹھاؤ، واں جا کے نظر کردو!
کہ لال دیووں کی دوستی کا، نوازشوں کا،عنایتوں کا
یہ خوب ہے ہدیۂ تشکر!
یہ پہلی قسطِ ادائیگی ہے!
یہ میتیں، یہ لہو، یہ آنسو، یہ آہیں، یہ نالے یہ زخم، گھاؤ
سمیٹ لے جاؤ دولتِ دل، خزانہ ہائے خودی اٹھاؤ
یہ آیتیں بھی، روایتیں بھی!
تمام ملت کی غایتیں بھی!
سبھی عقیدے، سبھی تصور، سبھی قوانین، سبھی شعائر
اٹھاؤ، لے جا کر نذر کردو!
ہمارے گھر میں، خود اپنے گھر کی، کوئی نشانی نہ رہنے پائے!
کسی کواس پر نہ بولنے دو! کوئی کہانی نہ کہنے پائے!
خدا پرستوں کے خوں کے بدلے!
بتانِ کافر کی دلنوازی
عجب ہے یہ شانِ کارسازی!
...............
وہ شیخ بنّا کاجسم کشتہ
یہ انگلیاں سن ہیں ان سے ہرگز، کوئی بھی تحریر اب نہ ہوگی!
یہ ہونٹ ساکت ہوئے ہیں، ان سے کوئی بھی تقریر اب نہ ہوگی!
کتابِ حق کی یہ بزمِ ملت، وہ صاف تفسیر اب نہ ہوگی!
کبھی بھی قصرِ شہید میں وارد، خدا کی تقدیر اب نہ ہوگی!
’’خدا‘‘ یہ صد شوق بن کے رہیے، ذرابھی تغیر اب نہ ہو گی!
مگر یہ لاشیں، یہ تین لاشیں!
ہزاروں لاشیں!
عجیب سا ہے سکوت ان کا
سکوت بھی اک پیام سا ہے
یہ معجزانہ سکوت ان کا، کہ جیسے طوفاں اٹھ رہا ہو!
کہ جیسے اک زلزلہ سا آئے، کہ جیسے محشر سا اک بپا ہو!
..................
وہ شیخ بنّا کا کہ بنا پیارا
وہ قطب تارا
نہ وہ مرا تھا،نہ یہ مریگا
نہ وہ مٹا تھا، نہ یہ مٹے گا
نہ شیخ بنا ٹلا تھا حق سے ، نہ قطب تارا کبھی ٹلے گا
شہید سارے!
دلوں میں آباد ہوگئے ہیں
جہاں کہیں سے ضمیر زندہ، ضمیرِ زندہ میں بس رہے ہیں
فنا سے آزاد ہو گئے ہیں!
تمام صیاد ختم ہونگے!
یہ سارے جنگلے، یہ کل فصلیں، یہ سب صلیبیں، یہ سب سلاسل!
یہ تخت و تاج و نشان و پرچم
یہ قصر و بام اور مہر و خاتم
تغیّرِوقت، تیز دھارا
بہائے لے جا رہا ہے ان کو
جدھر مشیت کا ہے اشارہ
کسے خبر کب ہو شہر یارو، حسابِ جور و جفا تمہارا
کبھی تو سوچو کہ کیا ہے آخر، تمام جورو جفا کا حاصل!
پکارتی ہیں یہ تازہ لاشیں، یہ سب کا سب ہے طلسمِ باطل
نصیب میں تخت ہو کہ تختہ
گرے گا ہر کوئی لاش بن کر، قتیل کے ساتھ ، ساتھ قاتل
ہے قبر سارے سفر کی منزل!
پکارتی ہیں یہ تازہ لاشیں!
..................
یہ تازہ لاشیں!
بڑے ادب سے انہیں اتارو!
دبے دبے پاؤں،ہولے ہولے ، سبک سبک ، طرز سے چلو
یہاں! درود پڑھ کر، سلام کہہ کر، یہاں پہ نذر گزارو!
بڑے ادب سے انہیں اتارو!
یہ میتیں ہیں ہماری دولت!
شاعر: نعیم صدیقیؒ