محسن وقار علی
محفلین
شہر قائد (کراچی) میں آتے جاتے چالیس برس سے زائد ہوگئے۔ یہ خوبصورت شہر جو کبھی 1947ء میں دوبئی، عمان اور کئی دیگر عرب ریاستوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور بہتر شہر تھا۔ پاکستان کا پہلا دارالحکومت بھی رہا۔ سمندری راستے کے ذریعے کئی ممالک بلکہ پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے قیام پاکستان کے وقت کا اگر دبئی کا جائزہ لیں بلکہ کہیں سے پرانی تصاویر حاصل کر کے دیکھ لیں۔ تو شہر قائد کئی گنا ترقی یافتہ، تاریخی عمارات، انتہائی اعلیٰ درجے کے اسکولز، مدرسے، انتہائی خوبصورت عمارات قدیم چرچ (گرجا گھروں) سے بھرپور شہر تھا۔ عمارات تو اب بھی جیسے تیسے حال میں ہیں ہر نسل، فرقے، ہر مذہب کے لوگ یہاں بھائی چارے اور محبت کے ساتھ رہتے تھے۔ شہر میں کئی مقامات پر قدیم ریلوے اسٹیشن تھے جن کی اب عمارتیں رہ گئی ہیں۔ کبھی اس شہر میں ٹرام بھی چلتی تھی۔ انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں خصوصاً کراچی، لاہور میں ترقیاتی کاموں کے عمل کو جاری رکھا۔ حالانکہ اگر ہم ہوتے تو ہم نہ صرف 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ترقیاتی کام بند کردیتے بلکہ جاتے جاتے ایئرپورٹ، ہوائی جہاز اور ریلوے تباہ کر جاتے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہم نے اب کون سی کسر کم کی ہے۔
پی آئی اے تباہی کے دہانے پر اور ریلوے تو مدت ہوئی تباہ ہوگئی۔ انگریزوں نے اور قیام پاکستان کے کچھ عرصہ تک کسی حکمران نے بھی کوئی ترقیاتی کام کر کے عوام پر بار بار احسان نہیں جتایا کہ ہم نے یہ کردیا فلاں سڑک بنوا دی، فلاں پل بنوا دیا۔ نہ عوام کی طرف سے خود ساختہ پوسٹرز اور بینرز لگائے گئے۔ کہ اہل علاقہ فلاں ایم این اے، ایم پی اے کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے گندی نالیاں پکی کرا دیں۔ گلی پکی کرا وی کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ عوام کے ٹیکس سے حکومت کو آمدنی ہوتی ہے اور وہ اس ٹیکس سے آنے والی آمدنی جو کہ قوم اور ملک کی امانت ہے اس کو فلاحی منصوبوں پر لگانے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن عوامی نمائندے اس رقم کو جو نہ تو ان کے باپ دادا کی ہے نہ انہیں کسی سے عطیہ میں ملی ہوئی ہے۔ وہ کام کرانے کے بعد اپنی بڑی تصاویر اور سنگ بنیاد پر اپنے نام لکھوا لیتے ہیں۔ آج کی طرح کے اس وقت کے انگریز بھی ایسے ہوتے تو آج برصغیر کی ہرگلی، ہر بازار اور سڑک پر بڑی تصاویر، بینرز، پوسٹرز اور مجسمے لگے ہوتے۔ اسلام میں مجسّمے لگانے کی اجازت نہیں۔ ورنہ آج پورے ملک میں ہر جگہ کسی ایم پی اے، کسی ایم این اے کا بت لگا ہوتا۔
پیسہ عوام کا ہر ترقیاتی کام میں عوامی نمائندے کمیشن بھی کھا جاتے ہیں۔ اور عوام پر احسان عظیم بھی جتاتے ہیں کہ یہ کام صرف اور صرف ہم ہی کرا سکتے تھے۔
آج آپ کراچی ایئرپورٹ سے پورا شہر گھوم جائیں۔ جگہ جگہ ہر سیاسی پارٹی کے لوگوں کی بڑی بڑی تصاویر، پیغامات، نعرے، وعدے اور پتہ نہیں کس کس کو اپنا نجات دہندہ اور اپنے مسائل کو حل کرانے کا ہیرو اور قائد قرار دیا ہوا لکھا نظر آئے گا۔ لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو اصل قائد تھا۔ جو آج بھی اصل قائد ہے اس قائداعظم کی آپ کو شاید ہی کہیں کوئی تصویر نظر آئے۔ ہمیں ان کے پیغامات یا ارشادات نہیں ملیں گے۔ تصور پاکستان شاعر مشرق علامہ اقبال کی بھی کوئی تصویر نظر نہیں آئے گی۔ دنیا کے کئی ممالک کے بے شمار شہروں میں آبادیاں بڑھتی ہیں لیکن وہاں پر ترقی کا عمل بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ ہم نے شہر قائد کو کیا دیا؟ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، نسلی تعصب، فرقہ واریت دی اور لوگوں کو انتہائی اہم اور بنیادی سہولتوں سے محروم کردیا۔ کراچی کے ایک اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں ایک بس کے اوپر بیٹھے ہوئے اور دروازوں کے ساتھ لوگ اس طرح چمٹے ہوئے تھے جیسے شہد کی مکھیوں کے چھتے پر مکھیاں بیٹھی ہوتی ہیں۔ ٹوٹی ہوئی بسیں۔ ویگنیں، جن کے شیشے اور دروازے نہیں، لائٹیں نہیں انہیں کون فٹنیس سر ٹیفکیٹ دیتا ہے؟ اور یہ سرٹیفیکٹ کیسے ملتے ہیں؟ یہ سب کو پتہ ہے۔ اور تو اور کراچی میں ایک اندھے (دونوں آنکھوں سے اندھے) کو ڈرائیونگ لائسنس دے دیا گیا۔ ایک ٹی وی چینل نے ٹیسٹ کیس کے طور پر رشوت دے کر اندھے کا کمپیوٹرائزڈ لائسنس بنوا دیا۔ جس پر کسی افسران اور لائسنس بنانے والوں کو معطل کر دیا گیا۔ کیا کوئی پوسٹرز، ہولڈنگ، بل بورڈ، اور بڑے بڑے بینرز لگا کر لوگوں کے دلوں پر راج کر سکتا ہے۔ آقائے دو جہاں آنحضور کا نام پاک آج ہرمسلمان کے دل میں ہے اور تاقیامت رہے گا۔ انبیاء کرام، اولیائے کرام کے مبارک نام تاقیامت زندہ رہیں گے۔ جو لوگ انسانیت کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔
آج پاکستان کا ہر لیڈر یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ عوام کا حقیقی لیڈر ہے وہی ملک کو بچا سکتا ہے اور وہ عوام کے دلوں پر راج کرتا ہے۔
قائداعظم کے انتقال کے بعد کون سا صدر/ حکمران ہے کہ جس کے انتقال پر صف ماتم بچھی ہو، لاکھوں افراد نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔ اسی طرح ونزویلا کے سابق صدر آنجہانی ہوگو شاویز کی موت پر پورے ونزویلا میں وہ جذباتی مناظر دیکھنے کو آئے۔ جو تاریخ کا شاندار حصہ بن چکے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک اہم پاکستانی لیڈر کے قتل کے چند روز بعد نیو ایئر تھا۔ لوگوں نے لاہور اور اسلام آباد میں بھرپور انداز میں نیو ایئر منایا تھا۔ آیئے آپ کو بتاتے ہیں کہ جو لوگ دلوں میں حکمرانی کرتے ہیں ان کے مرنے کے بعد بھی لوگ ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں۔ مثلاً مازوے تنگ ، مہاتما گاندھی ، جوائر لال نہرو ، اندرا گاندھی ، کم آل نگ ، اسٹالین ، لیڈی ڈیانا ، 2005ء میں پوپ یوحنا بولس ، جان ایف کینیڈی ، مشرق وسطی کے عالم شیخ محمد متولی الشعرادی ، یاسر عرفات، مصری گلوکارہ ام کلثوم اور جمال عبدالناصر کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ پوپ یوحنا بولس کے لیے 80 ہزار افراد نے اجتماعی دعا کی۔ ہمارے حکمرانوں نے اگر عوام کے دلوں میں حکمرانی کی ہوتی تو ان کے جنازے بھی اتنے بڑے ہوتے۔ لوگ انہیں یاد کرتے۔
ڈاکٹر فاروق ستار صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پریس کانفرنس میں بھلے اپنے الطاف بھائی کی اس سے بھی بڑی تصویر لگائیں۔ لیکن شہر قائد میں بانی پاکستان کی تصویر بھی پریس کانفرنس میں لگا لیا کریں۔ تو زیادہ اچھالگے گا۔ قائداعظم کا پورٹریٹ واحد مسلم لیگی آرٹسٹ احمد سعید ناگی نے تحریک پاکستان کے دنوں میں بنایا اور قائداعظم نے انہیں ایک مقررہ وقت دیا اور بیٹھ کر اپنا پورٹریٹ بنایا۔ قائداعظم کو وہ پورٹریٹ بہت پسند آیا۔ اور 1947ء سے 1977ء تک قائداعظم کا یہ پورٹریٹ سرکاری قرار پایا۔ اور ہر سرکاری عمارت اور تمام سفارت خانوں میں لگایا گیا۔ جس میں قائد کے چہرے تمام نقش و نگار بالکل اصل حالت میں دکھائے گئے ہیں۔ یہ پورٹریٹ بہت ساری پاکستانیوں کو یاد ہوگا۔ ضیاء الحق نے قائد کے اس آفیشنل پورٹریٹ کو تبدیل کردیا۔ حالانکہ جو تصویر قائداعظم نے خود بیٹھ کر بنوائی ہو۔ اس کی قدرومنزلت کہیں زیادہ ہے۔ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف اس پورٹریٹ کودوبارہ سرکاری پورٹریٹ قرار دیں۔ کیونکہ اب وہ مسلم لیگ کے رہنما ہیں۔
شہر قائد کے ساتھ ظلم و ستم، یہاں کے لوگوں کی تکلیفوں میں بے پناہ اضافہ کسی اور نے نہیں کیا۔ یہیں کے حکمرانوں نے کیا ہے۔ اب پھر وہی دور آرہا ہے۔ خدا خیر کرے۔ آیئے عہد کریں قائد کے شہر کو بچائیں گے اس شہر کے بے بس لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیریں گے اور بے حس حکمرانوں کو مجبور کریں گے کہ وہ شہر قائد، واقعی دوبئی جیسا بنائیں۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ