جاوید اختر شہر کے دکاندارو!!!! جاوید اختر

شہر کے دکاندارو! کاروبار الفت میں سود کیا زیاں کیا ہے ،تم نہ جان پاؤ گے
دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقدِ جان کیا ہے ،تم نہ جان پاؤ گے

کوئی کیسے ملتا ہے پھول کیسے کھلتا ہے آنکھ کیسے جھکتی ہے سانس کیسے رکتی ہے
کیسے راہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

وصل کا سکوں کیا ہے ،ہجر کا جنوں کیا ہے ،حسن کا فسوں کیا ہے، عشق کا دروں کیا ہے
تم مریضِ دانائی مصلحت کے شیدائی راہِ گمرہاں کیا ہے ،تم نہ جان پاؤ گے

زخم کیسے پھلتے ہیں ،داغ کیسے جلتے ہیں، درد کیسے ہوتا ہے ،کوئی کیسے روتا ہے
عشق کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے ،تم نہ جان پاؤگے

نا مراد دل کیسے صبح شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسے مرتے ہیں
تم کو کب نظر آئی غمزدوں کی تنہائی زیست بے امان کیا ہے، تم نہ جان پاؤگے

جانتا ہوں میں تم کو ذوقِ شاعری بھی ہے شخصیت سجانے میں اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے

جاوید اختر


عمدہ ہے۔ :great:
شکریہ شیئرنگ کے لئے۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت مشکل سوال ہے نایاب لالہ ۔
بتانے میں بہت مشکل سوال ہے بھیا
بس محسوس کیا جا سکتا ہے
لگتا ہے "مسوں " کو جواب نہیں آتا ۔
سوال مشکل ہے مگر جواب آسان ہے ۔
حرف وہ راہ ہے جس پر
کوئی احساس کوئی خواہش کوئی آرزو کوئی سوچ کوئی خیال
سفر کرتے لفظ کی صورت اظہار کی منزل تک پہنچتا ہے ۔
حرف وہ نکات ہیں جو مجسم ہو کر لفظ کو روپ دیتے ہیں ۔
کوئی سوچ ابھرتی ہے ۔ اظہار کو مچلتی ہے
حرفوں کو جوڑ لفظ بنے جاتے ہیں ۔
اور سوچ کا روپ مجسم ہو جاتا ہے ۔
حرف سے لفظ کے بننے تک جو وفا و جفا کی کیفیت ہوتی ہے ۔
لفظ بننے والا اپنی غرض کا غلام بنتے ان سے انجان رہتا ہے ۔
اور اک محترم و مقدس لفظ کو اپنی خواہش نفسانی کے زیر اثر بظور جال استعمال کرتا ہے ۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
لگتا ہے "مسوں " کو جواب نہیں آتا ۔
سوال مشکل ہے مگر جواب آسان ہے ۔
حرف وہ راہ ہے جس پر
کوئی احساس کوئی خواہش کوئی آرزو کوئی سوچ کوئی خیال
سفر کرتے لفظ کی صورت اظہار کی منزل تک پہنچتا ہے ۔
حرف وہ نکات ہیں جو مجسم ہو کر لفظ کو روپ دیتے ہیں ۔
کوئی سوچ ابھرتی ہے ۔ اظہار کو مچلتی ہے
حرفوں کو جوڑ لفظ بنے جاتے ہیں ۔
اور سوچ کا روپ مجسم ہو جاتا ہے ۔
حرف سے لفظ کے بننے تک جو وفا و جفا کی کیفیت ہوتی ہے ۔
لفظ بننے والا اپنی غرض کا غلام بنتے ان سے انجان رہتا ہے ۔
اور اک محترم و مقدس لفظ کو اپنی خواہش نفسانی کے زیر اثر بظور جال استعمال کرتا ہے ۔
خوب
ہمیشہ کی طرح لاجواب
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
لگتا ہے "مسوں " کو جواب نہیں آتا ۔
سوال مشکل ہے مگر جواب آسان ہے ۔
حرف وہ راہ ہے جس پر
کوئی احساس کوئی خواہش کوئی آرزو کوئی سوچ کوئی خیال
سفر کرتے لفظ کی صورت اظہار کی منزل تک پہنچتا ہے ۔
حرف وہ نکات ہیں جو مجسم ہو کر لفظ کو روپ دیتے ہیں ۔
کوئی سوچ ابھرتی ہے ۔ اظہار کو مچلتی ہے
حرفوں کو جوڑ لفظ بنے جاتے ہیں ۔
اور سوچ کا روپ مجسم ہو جاتا ہے ۔
حرف سے لفظ کے بننے تک جو وفا و جفا کی کیفیت ہوتی ہے ۔
لفظ بننے والا اپنی غرض کا غلام بنتے ان سے انجان رہتا ہے ۔
اور اک محترم و مقدس لفظ کو اپنی خواہش نفسانی کے زیر اثر بظور جال استعمال کرتا ہے ۔
میں آپ کی طرح اپنے ہر احساس کو اپنی ہر بات کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی لالہ ، بس کبھی کبھی اپنا مدعا بیان کرنا آتا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
میں تو ساتھ ساتھ سن رہی ہوں اور ساتھ ساتھ پڑھ رہی ہوں :)
ساتھ ساتھ لکھتی بھی جائیں کہ کہنے والے نے کہا کیا ہے ۔۔؟کیوں کہا ہے ۔۔۔۔؟
شہر کے دکانداروں سے ہی کیوں خطاب ہے ۔؟
کیا ہی خوب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top