مزمل شیخ بسمل
محفلین
شہر کے دکاندارو! کاروبار الفت میں سود کیا زیاں کیا ہے ،تم نہ جان پاؤ گے
دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقدِ جان کیا ہے ،تم نہ جان پاؤ گے
کوئی کیسے ملتا ہے پھول کیسے کھلتا ہے آنکھ کیسے جھکتی ہے سانس کیسے رکتی ہے
کیسے راہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے
وصل کا سکوں کیا ہے ،ہجر کا جنوں کیا ہے ،حسن کا فسوں کیا ہے، عشق کا دروں کیا ہے
تم مریضِ دانائی مصلحت کے شیدائی راہِ گمرہاں کیا ہے ،تم نہ جان پاؤ گے
زخم کیسے پھلتے ہیں ،داغ کیسے جلتے ہیں، درد کیسے ہوتا ہے ،کوئی کیسے روتا ہے
عشق کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے ،تم نہ جان پاؤگے
نا مراد دل کیسے صبح شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسے مرتے ہیں
تم کو کب نظر آئی غمزدوں کی تنہائی زیست بے امان کیا ہے، تم نہ جان پاؤگے
جانتا ہوں میں تم کو ذوقِ شاعری بھی ہے شخصیت سجانے میں اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
جاوید اختر
عمدہ ہے۔
شکریہ شیئرنگ کے لئے۔