شہزادی اور دیو

رضوان

محفلین
گو کہ یہ ایک لوک کہانی کا پلاٹ ہے لیکن ہمارے موجودہ بلکہ عرصے سے جاری حالات پر اتنی منطبق ہوتی ہے کہ آفاقی سچ Universal Truth ہی لگتی ہے اور ویسے بھی لوک کہانیاں دراصل نسلوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔ ہمارے پرکھوں کو بھی اپنے پوتوں کے کرتوتوں کاکچھ تو اندازہ ہوگا! اصل کہانی آپ خود اپنی یادوں کی وادی سے ڈھونڈھ نکالیں۔

“ ملک کے جری جوان سارے حصار اور رکاوٹیں ‌توڑ کر قید خانے میں جاپہنچے تاکہ اپنی محبوب شہزادی کو اس ظالم دیو کی قید سے رہائی دلائیں جس نے سات سال سے انکی شہزادی کو قید کر رکھا تھا۔ دیو کی دیگر معاملات میں الجھے ہونے کے باعث ان جوانوں کو یہ موقع مِل گیا تھا اور وہ اس قید خانے تک پہچ ہی گئے۔ شہزادی نے جب اپنے وطن کے ان جوانوں کو دیکھا تو پہلے مسکرائی اور پھر رو پڑی۔ یہ لوگ بڑے حیران ہوئے اور پوچھا“ شہزادی پہلے مسکرائی کیوں اور پھر روئی کیوں؟“
شہزادی نے انتہائی حسرت سے جواب دیا کہ “ پیارے ہموطنو! تمہیں دیکھ کر مسکرانا تو فطری امر تھا کہ تمہاری بہادری اور جرات کی وجہ سے مجھے آزادی نصیب ہورہی ہے، لیکن اگلے ہی لمحے اس خیال سے اداس ہوگئی کہ اگر تم اتنے ہی بہادر ہوتے تو مجھے یہ ظالم دیو اٹھا کرلاتا ہی کیوں ؟“
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب رضوان صاحب، بہت اچھی تحریر ہے اور یہ اختتام تو لاجواب ہے۔


"شہزادی نے انتہائی حسرت سے جواب دیا کہ “ پیارے ہموطنو! تمہیں دیکھ کر مسکرانا تو فطری امر تھا کہ تمہاری بہادری اور جرات کی وجہ سے مجھے آزادی نصیب ہورہی ہے، لیکن اگلے ہی لمحے اس خیال سے اداس ہوگئی کہ اگر تم اتنے ہی بہادر ہوتے تو مجھے یہ ظالم دیو اٹھا کرلاتا ہی کیوں ؟“



زبردست۔

۔
 

رضوان

محفلین
شکریہ وارث صاحب
اس کا مطلب ہے کہ دنیا ابھی علم و دانش کے قدردانوں سے خالی نہیں ہوئی۔;)
 

رضوان

محفلین
وارث صاحب
معزرت یہ ایک مزاق تھا۔
ویسے میرے حونصصلے کافی بلند ہیں بس قارئین کی برداشت کا امتحان مقصود ہے۔
 
Top