F@rzana
محفلین
شاہ گیانندرہ کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور کیسے آئی؟ اس کے پیچھے ایک شہزادے کی دیوانگی کی کہانی ہے۔
اگر نیپالی سیاست اس دیوانگی کی تاریخ سے نہ گزری ہوتی تو شاہ گیانندرہ آج بھی اپنے بھائی شاہ بریندرا کے سایے کی آڑ میں رہ رہے ہوتے جنہیں ملک بھر میں نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
تاہم یکم جون 2001 کو ایسا واقعہ ہوا جس نے ملک کو سیاسی بحران کی سمت دھکیل دیا۔ اس روز شاہ بریندرا کے بیٹے نے شراب کے نشے میں شاہی محل کے ایک کمرے میں جمع اپنے ہی خاندان کے افراد پر گولیاں چلادیں ۔ شاہ بریندرا اور ملکہ ایشوریہ سمیت خاندان کے نو افراد نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔
اس واقعے کے بعد سے ملک کے حالات مسلسل ابتری کا شکار ہیں۔
نیپال میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو جمہوریت کے حق میں کیئے گئے مظاہروں سے نمٹنے کے شاہ گیانندرہ کے طریقہ کار کو تباہ کن نہ قرار دیتا ہو۔
شاہ نے چند دنوں ہی میں پرامن طور پر شروع کیئے جانے والے مظاہروں کو شاہ مخالف مشتعل احتجاج میں تبدیل کردیا۔ حتٰی کہ ان مظاہروں کو روکنے والے پولیس اہلکار بھی شاہ کے موقف پر ناخوش ہیں۔
نیپالی کہتے ہیں کہ انہیں دو بددعائیں ایسی دی گئی ہیں جو ان کی زندگیوں پر حاوی ہیں: شدید غربت اور بدترین سیاست۔ دوسری بد دعا ہی وہ طاقت دکھائی دیتی ہے جس کی بنیاد پر شاہ گیانندرہ اب بھی ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔
دنیا میں ہر انقلاب کے پیچھے ایسا چہرہ ہوتا ہے جو لوگوں کے حق کے لیئے جان بھی دینے کو تیار ہوتا ہے لیکن نیپال کی حزب مخالف کے ارکان اتنے بوڑھے ہیں کہ انقلاب تو دور کی بات، وہ بغیر سہارے کے چل بھی نہیں سکتے۔
1990 میں نیپالی عوام نے اپنے جمہوری حقوق حاصل کیئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تب ہی سےسیاستدان سالہا سال سے ان کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔
باسو گیمیئر کی موت ایسا واقعہ تھا جس نے عوام کو شاہ سے متنفر کردیا۔ باسو کی بیوی کے بقول وہ ایک سادہ شخص، پیشے کے اعتبار سے بڑھئی اور ایک چار سالہ بچے کا باپ تھا۔
جمہوریت کے حق میں ایک پرامن مظاہرے کے دوران انہیں پولیس فائرنگ میں ہلاک کردیا گیا۔ اس پر ظلم یہ کیا گیا کہ شاہ نے باسو کے خاندان کو ہندو روایتی طریقے سے آخری رسومات کی اجازت بھی نہ دی بلکہ پولیس ان کی لاش کو گھسیٹتی ہوئی لے گئی اور ان کے خاندان کو اطلاع دیئے بغیر لاش کو نذر آتش کردیا۔
کسی بھی ملک میں ایسے مسئلے کا حل نئے شاہ کی تقرری ہوسکتا ہے۔
نیپال ماؤ باغیوں کے رہنما پراچندرا بھی ان حالات پر نہایت ناخوش بلکہ مشتعل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر مجھے موقع ملا تو میں شاہ گیانندرہ کو قتل کردوں گا‘۔بشکریہ بی بی سی
مزید :http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2006/04/060429_nepal_issue_na.shtml
اگر نیپالی سیاست اس دیوانگی کی تاریخ سے نہ گزری ہوتی تو شاہ گیانندرہ آج بھی اپنے بھائی شاہ بریندرا کے سایے کی آڑ میں رہ رہے ہوتے جنہیں ملک بھر میں نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
تاہم یکم جون 2001 کو ایسا واقعہ ہوا جس نے ملک کو سیاسی بحران کی سمت دھکیل دیا۔ اس روز شاہ بریندرا کے بیٹے نے شراب کے نشے میں شاہی محل کے ایک کمرے میں جمع اپنے ہی خاندان کے افراد پر گولیاں چلادیں ۔ شاہ بریندرا اور ملکہ ایشوریہ سمیت خاندان کے نو افراد نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔
اس واقعے کے بعد سے ملک کے حالات مسلسل ابتری کا شکار ہیں۔
نیپال میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو جمہوریت کے حق میں کیئے گئے مظاہروں سے نمٹنے کے شاہ گیانندرہ کے طریقہ کار کو تباہ کن نہ قرار دیتا ہو۔
شاہ نے چند دنوں ہی میں پرامن طور پر شروع کیئے جانے والے مظاہروں کو شاہ مخالف مشتعل احتجاج میں تبدیل کردیا۔ حتٰی کہ ان مظاہروں کو روکنے والے پولیس اہلکار بھی شاہ کے موقف پر ناخوش ہیں۔
نیپالی کہتے ہیں کہ انہیں دو بددعائیں ایسی دی گئی ہیں جو ان کی زندگیوں پر حاوی ہیں: شدید غربت اور بدترین سیاست۔ دوسری بد دعا ہی وہ طاقت دکھائی دیتی ہے جس کی بنیاد پر شاہ گیانندرہ اب بھی ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔
دنیا میں ہر انقلاب کے پیچھے ایسا چہرہ ہوتا ہے جو لوگوں کے حق کے لیئے جان بھی دینے کو تیار ہوتا ہے لیکن نیپال کی حزب مخالف کے ارکان اتنے بوڑھے ہیں کہ انقلاب تو دور کی بات، وہ بغیر سہارے کے چل بھی نہیں سکتے۔
1990 میں نیپالی عوام نے اپنے جمہوری حقوق حاصل کیئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تب ہی سےسیاستدان سالہا سال سے ان کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔
باسو گیمیئر کی موت ایسا واقعہ تھا جس نے عوام کو شاہ سے متنفر کردیا۔ باسو کی بیوی کے بقول وہ ایک سادہ شخص، پیشے کے اعتبار سے بڑھئی اور ایک چار سالہ بچے کا باپ تھا۔
جمہوریت کے حق میں ایک پرامن مظاہرے کے دوران انہیں پولیس فائرنگ میں ہلاک کردیا گیا۔ اس پر ظلم یہ کیا گیا کہ شاہ نے باسو کے خاندان کو ہندو روایتی طریقے سے آخری رسومات کی اجازت بھی نہ دی بلکہ پولیس ان کی لاش کو گھسیٹتی ہوئی لے گئی اور ان کے خاندان کو اطلاع دیئے بغیر لاش کو نذر آتش کردیا۔
کسی بھی ملک میں ایسے مسئلے کا حل نئے شاہ کی تقرری ہوسکتا ہے۔
نیپال ماؤ باغیوں کے رہنما پراچندرا بھی ان حالات پر نہایت ناخوش بلکہ مشتعل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر مجھے موقع ملا تو میں شاہ گیانندرہ کو قتل کردوں گا‘۔بشکریہ بی بی سی
مزید :http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2006/04/060429_nepal_issue_na.shtml