مصطفیٰ زیدی اور شہناز
مصطفیٰ زیدی جب گوجرانوالہ آئے تو یہیں ان کی ملاقات شہناز سے ہوئی شہناز گُل ۔۔۔۔۔ وہ پری وش جو مصطفےٰ زیدی کی زندگی کے آخری ایام میں اس کی تنہائیوں کی رفیق اور زندگی کے آخری پُر اسرار لمحوں کے رازوں کی امین تھی
یحییٰ خان کا زمانہ تھا۔ جس نے اسکریننگ کر کے 303 افسران کو بیک جنبش قلم ملازمتوں سے فارغ کر دیا تھا۔ زیدی بھی اس کا نشانہ بن گئے۔ افسر شاہی ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ جرمن بیوی ویرا زیدی اور دونوں بچے جرمنی میں تھے، پاسپورٹ سرکار نے ضبط کر رکھا تھا، ایسے عالم میں ماسٹر ٹائر اینڈ ربر فیکٹری کے مالک فیاض ملک نے آگے بڑھ کر دوستی کا حق ادا کر دیا اور اپنے بنگلے کی انیکسی مصطفی زیدی کو رہائش کے لیے دے دی۔ اسی انیکسی میں ان کی ملاقاتیں ایک عرصے تک تو شہناز گل سے جاری رہیں، لیکن بعد میں یہ سلسلہ بوجوہ آگے نہ بڑھ سکا۔
ایک دن مصطفی زیدی نے حبیب بینک پلازہ کے سگنل پر رکی ایک کار میں دیکھا کہ ان کی محبوبہ شہناز گل معروف صنعت کار آدم جی پیر بھائی کے ساتھ بیٹھی ہے۔ مصطفی زیدی جیسا حساس اور زودرنج شاعر اس نظارے کو برداشت نہ کر سکا، وہ تو سمجھتا تھا کہ شہناز گل اس کی محبت میں گرفتار ہے، اس کی چاہتوں کی اسیر ہے،
مصطفیٰ زیدی کی لاش دس اکتوبر 1970ء کو کراچی کے ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی۔ جبکہ شہناز گل بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔
(کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ زیدی مردہ حالت میں ہوٹل سمار کے ایک کمرے میں پائے گئے تھے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ ان کی لاش ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی۔ اس میں تضاد ہے)
جس پر بعد میں تحقیقاتی کمیشن بھی بنا تھا اور مقدمہ بھی عدالت میں گیا تھا۔ یہ مقدمہ اخبارات نے اس قدر اچھالا کہ مہینوں تک اس پر دھواں دھار بحث ہوتی رہی۔ ان دنوں ہمارے اخبارات اچانک ہی بالغ ہو گئے تھے کیونکہ عدالت میں شہناز گل کے دیئے گئے بیانات نے بہت سے لوگوں کو اپنے گھر آنے والے اخبارات کو روکنا پڑا تھا
اور ہفت روزہ چٹان میں شورش کشمیری کو ایک نظم لکھنا پڑی تھی جس کے اس ایک شعر سے اس نظم کے موڈ کا اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا۔
بانجھ ہو جائیں زمینیں, بیٹیاں پیدا نہ ہوں
یا خدا شہناز گل سی, بیبیاں پیدا نہ ہوں
رضا علی عابدی نے مصطفی زیدی کے ساتھ نیم مردہ حالت میں پائی جانے والی خاتون شہناز کا احوال بھی اپنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ پہلے یہ خبر بطور ایک چھوٹی خبر موصول ہوئی کہ ایک سرکاری افسر نے خودکشی کرلی ہے، جب خبر پھیلی کہ متوفی مصطفی زیدی ہیں تو تمام اخبارات اس خبر کی تفصیل کے پیچھے پڑ گئے اور بقول عابدی صاحب ایسی ایسی داستانیں نکال کر لائے کہ مصطفی زیدی اگر اس وقت بچ جاتے تو اب مر جاتے۔
عدالت میں حریت کے فوٹو گرافر نے شہناز گل کی ایک قد آدم تصویر کھینچ لی۔ رضا علی عابدی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد افتخار عارف نے ایک تقریب میں شہناز گل سے کہا کہ ’ابھی تو آپ پر دس بیس شاعر اور قربان ہوسکتے ہیں۔
عدالت نے طویل رد و کد کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ قتل نہیں بلکہ خودکشی تھی اور شہناز گل کو بری کر دیا۔
مصطفی زیدی کی وفات کا دکھ ادبی حلقوں ہی میں نہیں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں محسوس کیا گیا۔
جوش ملیح آبادی نے اس سانحے پر کہا "زیدی کی موت نے مجھ کو ایک ایسے جواں سال اور ذہین رفیق سفر سے محروم کر دیا جو فکر کے بھیانک جنگلوں میں میرے شانے سے شانہ ملا کر چلتا اور مسائل کائنات سلجھانے میں میرا ہاتھ بٹایا کرتا"
وہ کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔
مصطفی زیدی نے خود ہی کہا تھا کہ
"میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے"
شہناز گل کے لیے مصطفیٰ زیدی نے کئی غزلیں اور نظمیں کہی تھیں جن میں یہ غزل بہت مشہور ہے:
فن کار خود نہ تهی ،مرے فن کی شریک تھی
وه روح كے سفر میں َبدن کی شریک تھی
اُترا تھا جس پہ باب ِحيا كا ورق ورق
بستر كے ایک ایک شکن کی شریک تھی
میں اک اعتبار سے آتش پرست تھا
وه سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی
وه نازشِ ستاره و طَنّازِ ماہتاب
گردش کے وقت میرے گہن کی شریک تھی
وه ہم جليسِ سانحہ ء زحمتِ نشاط
آسائشِ صلیب و َرسن کی شریک تھی
ناقابل ِبیان اندھیرے کے باوجود
میری دُعائے صبحِ وطن کی شریک تھی
دُنیا میں اک سال کی مدت کا قُرب تھا
دل میں کئی ہزار قرن کی شریک تھی
یہ نظم کراچی کے ہوٹل سمار میں لکھی گئی یہ وہی ہوٹل ہے جس کے ایک کمرے میں مصطفےٰ زیدی مردہ پائے گئے تھے
"شہناز(5)"
جس طرح ترک تعلق پہ ہے اصرار اب کے
ایسی شدت تو میرے عہد وفا میں بھی نہ تھی
میں نے دیدہ و دانستہ پیا ہے وہ زہر
جس کی جرات صف تسلیم و رضا میں بھی نہ تھی
تو نے جس لہر کی صورت سے مجھے چاہا تھا
ساز میں بھی نہ تھی وہ بات، صبا میں بھی نہ تھی
بے نیاز ایسا تھا میں دشت جنوں میں کھو کر
مجھ کو پانے کی سکت ارض و سما میں بھی نہ تھی
اور اب یوں ہے کے جیسے کبھی رسم اخلاص
مہ نشینوں میں تو کیا، ہم فقیروں میں بھی نہ تھی
بے وفائی کی یہ مشترکہ نئی آسائش
دل پرخون میں بھی اور رنگ حنا میں بھی نہ تھی
نہ تو شرمندہ ہے دل اور نہ حنا خوار اب کے
جس طرح ترک تعلق پہ ہے اصرار اب کے
ہوٹل سمار، کراچی 22 ستمبر 1970
"شہناز"
خود کو تاراج کرو
زندگیاں کم کر لو
جتنا چاہو دل ِ شوریدہ
کا ماتم کر لو
تاب ِ وحشت کسی صحرا
کسی زنداں میں نہیں
اِس قدر چارہ گری
وقت کے امکاں میں نہیں
خاطر ِ جاں کے
قرینے تو کہاں آئیں گے
صرف یہ ہو گا کہ
احباب بچھڑ جائیں گے
گھر جو اُجڑے تو
سنورتے نہیں دیکھے اب تک
ایسے ناسُور تو
بھرتے نہیں دیکھے اب تک