فرخ منظور
لائبریرین
شہیدِ ساز
(منٹو کی یاد میں)
کیا کچھ نہ دل پہ بیت گئی ہے نہ پوچھیے
جب یہ کہا کسی نے کہ منٹو گزر گیا
یوں دل دھڑک کے ہو گیا خاموش یک بیک
جیسے خود اپنے گھر کا کوئی فرد مر گیا
اس پر سکوت لمحۂ سوزاں سے آج تک
جب بھی قلم اٹھایا ہے آنسو نکل گئے
اس کا خیال آتے ہی یوں چیخ اٹھی ہے روح
گویا دل و دماغ پہ آرے سے چل گئے
احسان پہلے کم تھے دلِ غم پناہ پر
جو ہم نئے کرم سے نوازے گئے ہیں آج
کس کو خبر اس ایک جنازے کے ساتھ ساتھ
قبروں تک اپنی کتنے جنازے گئے ہیں آج
یہ دور جس میں دل کا نہیں ہے کوئی مقام
پتھر سے کر رہا ہے جو شیشے کا احترام
اس دور میں یہ جراتِ رندانہ دل کی بات
کہتا رہا ہے کوئی تو منٹو تھا اس کا نام
منٹو کہ جس نے زہر پیا ہے بہ ہر نفس
اور زندگی کا نام لیا ہے تمام عمرِ
تہذیب کا کھرچ کے ہر اِک غازۂ فریب
انساں کا انتقام لیا ہے تمام عمر
وہ زندگی اسیرِ جہاں کب رہی کہ آج
قیدِ نفس سے بھی اسے آزاد کر دیا
کس وقت آ گیا ہے تری رحمتوں کو جوش
یہ تُو نے آج کیا مرے صیّاد کر دیا
یہ محفلِ ادب کہ بہ فیضِ چراغِ فکر
اِک عرصۂ دراز سے ظلمت بدوش ہے
اِک طاق میں کہیں بہ تپِ شعلۂ دروں
"اِک شمع جل رہی تھی سو وہ بھی خموش ہے"
(حمایت علی شاعر)