فرخ منظور
لائبریرین
شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نام ور کی طرح
جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح
کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق، سحر کی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح
سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ
کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح
تمام خلق ہے خواہانِ آبرو، یارب!
چھپا مجھے صدفِ قبر میں گہر کی طرح
تجھی کو دیکھوں گا جب تک ہیں بے قرار آنکھیں
مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح
انیس یوں ہوا حالِ جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت، گرے ثمر کی طرح
(میر ببر علی انیس)
جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح
کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق، سحر کی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح
سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ
کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح
تمام خلق ہے خواہانِ آبرو، یارب!
چھپا مجھے صدفِ قبر میں گہر کی طرح
تجھی کو دیکھوں گا جب تک ہیں بے قرار آنکھیں
مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح
انیس یوں ہوا حالِ جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت، گرے ثمر کی طرح
(میر ببر علی انیس)