محمود احمد غزنوی
محفلین
سنتے ہیں آج کاشفی پھر بین ہو گیا
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
بھائی لوگو اردو محفل میں سڑک تو ہے نہیں ورنہ میں ضرور مطالبہ کرتا کہ ایک سڑک کو کاشفی شہید کے نام سے موسوم کر دیا جائے۔ خدا کاشفی شہید کے درجات کو بلند فرمائے۔
نہیں جناب صرف آپ کی تعریف کر رہا تھا ۔میں نے کیا کر دیا ؟ کہیں یہ اشاروں کنایوں میں میری کھنچائی تو نہیں ہو رہی؟
شہید راہِ حق کاشفی کی یاد میں جو حق پرستی کی پاداش میں مارا گیا
اے مرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر اب بلندی پہ ترا ستارہ نہیں
غیر کا ذکر کیا غیر پھر غیر ہے جو ہمارا تھا وہ بھی ہمارا نہیں
اے مرے ہمنشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزرا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ میں نے تم کو پکارا نہیں
ٹھوکریں یوں لگانے سے کیا فائدہ صاف کہدو کہ ملنا گورا نہیں
آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گورا نہیں
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں
باغباں کو لہوکی ضرورت پڑی سب سے پہلے یہ گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہلِ چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
ظالموں اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقینا سُنیں گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
برائے مہربانی اس موضوع کو متنازع نہ سمجھا اور بنایا نہ جائے ۔
موضوع شروع کرنے کا مقصد صرف کاشفی سے اظہار عقیدت کرنا ٹھرا ۔
راہِ حق میں مر بھی گیا تو ہوں گا شہید
زندہ بچا تو میں غازی کہلاؤں گا
خوش آمید کہیں گے آپ کو کاشفی صاحب آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی ۔
راہِ حق کو کاشفی کی تلاش
یہ کس کا انتظار ہے یہ کیسی رات ہے
شمعیں تو بجھ گئیں مگر آنکھیں بجھی نہیں