عمران القادری
محفلین
محمد حسین آزاد الازہری
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض انفرادی اصلاح اور تعمیر شخصیت کے لئے نہیں بلکہ عالم دنیا پر دین اسلام کے غلبہ و استحکام کا عظیم مشن اورمقصد دیکر بھیجا تھا تاکہ ایک معتدل، متوازن اور عادلانہ و منصفانہ نظام قائم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے ساتھ ہی اس عظیم انقلاب کی بنیاد رکھ دی اور صرف ایک صدی کے اندر ہی یورپ، افریقہ اور ایشیا سمیت پوری دنیا میں ہمہ گیر اقتصادی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور علمی و تعلیمی انقلاب برپا ہوگیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی محدود علاقے یا افراد کے لئے نجات دہندہ بن کرجلوہ افروز نہیں ہوئے تھے بلکہ پوری انسانیت کی رہبرو رہنمائی اور اصلاح آپ کا فریضہ منصبی تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کو ’’رحمۃ للعلمین‘‘ کا ٹائیٹل دیا گیا اور اس عظیم عالمی انقلاب کے بعد بھی فلسفہ عروج و زوال کے مطابق دین اسلام کے دوبارہ احیاء کی بابت حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ارشاد فرمایا تھا:
لَايقُوْمُ بِدِيْنِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ اَحَاطَه مِنْ جَمِيْعِ جَوَانِبِه.
(دلائل النبوة لابی نعيم)
’’دین کو وہی شخص زندہ کرسکے گا جو دین کے تمام پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں داخل کرے گا‘‘۔
گویا موجودہ دورِ زوال کو پھر سے عروج آشنا کرنے کے لئے کسی ایسے مربی و رہنما اور عظیم قائد کی ضرورت تھی جس ہستی اور شخصیت کے اثرات دین اسلام کے صرف ایک دو پہلوؤں تک محدود نہ ہوں بلکہ بیک وقت وہ دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں لیکر میدان عمل میں اترا ہو۔ اس حوالے سے اگر عالم اسلام کی موجودہ علمی وفکری، اعتقادی و نظریاتی اور سیاسی و انقلابی قیادتوں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس میں ہمیں دین کی دعوت کی وسعت، جامعیت اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے ایک ایسی قیادت نظر آتی ہے جو مذکورہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصداق ہے۔ ان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ ان کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور عزم مصمم کی خوبصورت کڑی ہے۔ انہوں نے متعدد قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں لیکچر دے کر عصر نو میں اسلام کے احیاء اور ترویج و اشاعت کے لئے ذہنی اور فکری طور پر اپنی تبلیغی کاوشوں سے فضا کو ہموار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ آپ کی علمی قدرو منزلت کا معترف ہے اور اپنے پرائے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اگر ان کے اعزازات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اختصار کے پیش نظر چند اہم اعزازات درج کئے جاتے ہیں۔
1971ء میں آل پاکستان مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے آپ کو قائداعظم گولڈ میڈل سے نوازا۔
1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کیا اسی سال آپ کو پاکستان کلچرل گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔
1984ء میں ملی خدمات کے اعتراف میں کاروان شفقت پاکستان نے گولڈ میڈل کے ساتھ سند امتیاز بھی دی۔
اسی سال نمایاں خدمات کے صلے میں قرشی گولڈ میڈل کے علاوہ سند امتیاز دی گئی۔
انٹرنیشنل بائیو گرافیکل سنٹر (IBC ) آف کیمبرج انگلینڈ کی طرف سے تعلیم اور سماجی بہبود کیلئے دنیا بھر میں عظیم خدمات کے صلے میں پروفیسر صاحب کوThe International Man of the Year 1998-99 قرار دیا گیا ہے۔
امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا کے سب سے بڑے غیر حکومتی تعلیمی منصوبہ چلانے، 250 کتب (جبکہ اب کتابوں میں اب اضافہ ہوچکا ہے) کے مصنف ہونے، 5000 سے زائد موضوعات پر دنیا کے مختلف خطوں اور اداروں میں لیکچر ز دینے، تحریک منہاج القرآن کے بانی اور منہاج انٹر نیشنل یونیورسٹی کے چانسلر ہونے کی خدمات کے صلے میں’’دی انٹر نیشنل کلچرل ڈپلومہ آف آنر‘‘ (The International Cultural Diploma of Honour) دیا گیا۔
امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا بھر میں مختلف میدانوں میں معاشرے کیلئے غیر معمولی خدمات کے اعتراف پر (International Who's who of contemporary achievement) کے پانچویں ایڈیشن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر ایک باب شامل اشاعت کیا گیا ہے۔
بیسویں صدی کے International Who is Who کی طرف سے آپ کو Certificate of Recognition دیا گیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی میں موثر خدمات انجام دینے پر بیسویں صدی کا Achievement Award دیا گیا۔
امریکن بائیو گر افیکل انسٹیٹیوٹ (ABI) کی طرف سے آپ کو بیسویں صدی کی غیر معمولی شخصیت
(Outstanding Man of the 20th Century) کا خطاب دیا گیا۔
بیسویں صدی میں غیر معمولی علمی خدمات پر Leading Intellectual of the World کا خطاب دیا گیا۔
فروغ تعلیم کیلئے آپ کو بے مثال خدمات پر International Who is Who کی طرف سے Individual Achievement Award دیا گیا۔
بے مثال تحقیقی خدمات پر آپ کو A.B.I کی طرف سے Key of Success کا اعزاز دیا گیا۔
علاوہ ازیں قومی اور بین الاقوامی جامعات میں آپ کی فکر و شخصیت اور خدمات پر تحقیقی کام بھی ہورہے ہیں۔
اس عظیم شخصیت نے اپنی دعوت کی بنیاد قرآن مجید کو بنایا اور اپنے مشن اور تحریک کا نام ہی ’’منہاج القرآن‘‘ رکھا۔ گویا انہوں نے امت مسلمہ کو دعوت دی کہ آؤ ہم اپنے عقائد، معاملات، عبادات اور مکمل نظام زندگی کو قرآن پر پرکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو استوار کرتے ہیں۔
اس عظیم قائد نے امت مسلمہ کے مرض کا ایسا علاج تجویز کیا کہ جس میں اختلاف یا انکار کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔ گویا انہوں نے پوری قوم کو دعوت عام دی کہ آؤ ہم مردہ اقدار حیات کو پھر سے زندگی بخشیں اور انتشار و افتراق اور تفرقہ پرستی کی دلدل سے نکل کر پھر سے اتحاد امت اور وحدت و یگانگت کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔ اس دعوت عمل سے بالخصوص نوجوان طبقہ کو امید کی کرن دکھائی دی اور جوق در جوق اس قافلہ عشق و مستی میں شامل ہوتے گئے۔ تحریک منہاج القرآن بپا کرنے کے عزم صمیم کے ساتھ ہی تحریک کے جو چھ بنیادی عناصر تشکیل دیئے گئے ان میں رجوع الی القرآن کو بنیادی حیثیت حاصل تھی جس کے لئے اس عظیم قائد نے ملک عزیز کے طول و عرض میں دروس قرآن کا جال پھیلادیا اور جب TV پر پاکستان میں ’’فہم القرآن‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا اور 1992ء میں ابوظہبی اور متحدہ عرب امارات کے ٹیلیویژن پر انگریزی زبان میں Islam in focus اور Reflection of Quran کے موضوع پر خطابات نشر ہوئے تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر رونما ہوئے۔ اس طرح انہوں نے درج ذیل تین بنیادوں پر فروغ دعوت کا عمل کرکے فکری انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔
اسلام کی روحانی دعوت - Spiritual Presentation of Islam
اسلام کی عملی دعوت - Practical Presentation of Islam
اسلام کی سائنسی دعوت - Scientific Presentation of Islam
عالمگیر سطح پر اس دعوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی افکار و خیالات کا حامل آج کا نوجوان جو اپنے مسلمان ہونے پر نادم و شرمندہ تھا آج فخر کے ساتھ عقلی و نقلی بنیادوں پر اپنے اعتراضات کا تسلی بخش جواب پاکر دوبارہ سوئے منزل صراط مستقیم پر گامزن ہوا۔
اسی طرح جب اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فتنہ بپا ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبت و عشق، نسبت تعلق اور نسبت غلامی کو امتیازی حوالے سے باعث نزاع بنا دیا گیا اور دشمنان اسلام کی شعوری کوششوں کے نتیجے میں اکثر سادہ لوح مسلمان توحید کے زعم میں مبتلا ہوکر مرکز ایمان سے دور ہوگئے تو اس گمراہی میں پیش پیش نام نہاد علمائے دین شعوری یا غیر شعوری طور پر اس so called فتنے کا حصہ بن گئے۔ اس موقع پر اس عظیم قائد نے ایک بار پھر امت مسلمہ کے اس علاج کی تشخیص کرتے ہوئے اپنی دعوت کا عنوان ہی فروغ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا اور قرآن و حدیث، اسوہ صحابہ رضی اللہ عنھم و اہل بیت رضی اللہ عنھم، تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیھم کی تعلیمات کی روشنی میں اس قدر جانبدار مؤقف پیش کیا کہ فرقہ پرست اور انتشار پسند علماء کو یہ موضوع ترک کرنا پڑا اور محبت و اطاعت اور عشق و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناگزیریت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ
مغز قرآں، روح ایماں، جان دیں
ہست حب رحمۃ اللعلمین
یہی وجہ ہے کہ آپ کے وہ جلیل القدر اساتذہ جن کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ طے کیا اُن تمام عظیم المرتبت ہستیوں نے بلا استثنیٰ آپ کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لئے خصوصی توجہ اور تربیت سے نوازا جس کی وجہ سے آپ کم سنی میں ہی مرج البحرین یعنی جدید و قدیم علوم کے حامل اور جامع المعقول والمنقول بن کر ابھرے۔ عمر کے اس حصے میں آپ کی علمیت اور خطابت کا شہرہ چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ ان کے درس نظامی، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے سب اساتذہ کو معلوم تھا کہ یہ ذہین و فطین طالب علم ایک دن نام پیدا کرے گا کیونکہ اس میں عظیم شخصیت بننے کی غیر معمولی صلاحیتیں تھیں جنہوں نے دین متین کی خدمت اور اسے عروج آشنا کرنے کے کام آنا تھا۔
جن نامور شیوخ، جلیل القدر زعمائے ملت اور عظیم المرتبت اساتذہ کرام سے انہوں نے اکتساب علم اور اکتساب فیض کیا اور حکمت کے لولوئے آبدار سے اپنے دامن کو بھرا ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ (مرشد گرامی)
فریدالملت حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ (والد گرامی)
شیخ العرب والعجم حضرت علامہ محمد ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ
استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا عبدالرشید رضوی رحمۃ اللہ علیہ
استاذ العلماء حضرت علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ
غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
شارح بخاری حضرت علامہ مولانا غلام رسول رضوی
مفکر اسلام حضرت ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ
محقق عصر حضرت پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی
محدثِ حرم حضرت الشیخ السید محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ
ذیل میں ہم اس نابغۂ روزگار ہستی کی قومی اور بین الاقوامی تبلیغی خدمات کا مختصر جائزہ لیں گے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپریل 1978ء میں لاہور میں اپنے کیرئیر کا آغاز پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں بطور اسلامک لیکچرر کیا اس سے قبل گورنمنٹ کالج جھنگ اور پھر گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں اسلامک لیکچرر رہے۔ انہوں نے قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی میں بطور ایکسپرٹ بھی خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے مشیر کے طور پر بھی بہت سے مقدمات میں عدالت کی علمی طور پر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ 1984ء میں وہ ایپلٹ شریعت بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی مشیر فقہ مقرر ہوئے۔ اسی سال آپ نے مسلسل تین دن وفاقی شرعی عدالت میں رجم کے حد ہونے کی سزا کو ثابت کیا جس کے نتیجے میں مذکورہ عدالت نے رجم کے حد ہونے سے انکار پر مبنی فیصلے کو واپس لے لیا۔ اسی سال انہوں نے سلسلہ وار درس قرآن کا آغاز کیا۔ 1984ء ہی میں انہوں نے وفاقی شرعی عدالت میں پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت ثابت کرنے کے لئے دلائل دیئے۔ جس کی بناء پر عدالت نے قادیانیوں کی درخواست خارج کردی۔ 1984ء ہی میں آپ نے انتہائی ٹھوس اور مضبوط دلائل سے عورت کی پوری دیت کو ثابت کیا۔ اسی سال انہوں نے اوسلو (ناروے) کا پہلا تبلیغی دورہ کیا اور اوسلو میں بین الاقوامی اسلامک کانفرنس میں خطاب کیا۔ اس موقع پر کثیر تعداد میں عیسائی مسلمان ہوئے۔
دسمبر 1984ء میں انہوں نے متحدہ عرب امارات کا دعوتی و تبلیغی دورہ کیا اور اگلے سال مئی 1985ء میں وہ تبلیغی دورے پر ازبکستان تشریف لے گئے۔ 1986ء میں آپ امریکہ کے تبلیغی دورے پر تشریف لے گئے جس کے دوران انہوں نے نیویارک، واشنگٹن، لاس اینجلس، بالٹی مور اور لارل میں بھرپور خطابات کئے اور کئی غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کیا اس کے علاوہ نوجوان نسل کو دین اسلام سے روشناس کرایا۔ اسی سال انہوں نے ڈنمارک کا تبلیغی دورہ بھی کیا جہاں آپ کی تبلیغی خدمات کے نتیجے میں ادارہ منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا۔ 1987ء میں پہلی عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منہاج القرآن پارک ماڈل ٹاؤن میں منعقد ہوئی جس کی صدارت قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی اور خصوصی خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فرمایا۔ اس دوران تین چار گھنٹے کی مسلسل بارش کے باوجود پنڈال کے سامعین جم کر کانفرنس کی کاروائی سنتے رہے۔ اس فقیدالمثال کانفرنس میں جن عظیم روحانی شخصیات نے شرکت فرمائی ان میں حضرت پیر صاحب آف گولڑہ شریف، ضیاء الامت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت پیر سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ (کرمانوالہ شریف)، حضرت پیر سید محمد باقر علی (کیلیانوالہ شریف)، مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علامہ مولانا حامد سعید کاظمی، حضرت صاحبزادہ حاجی فضل کریم، حضرت علامہ شیخ گل (لنڈی کوتل) شامل ہیں۔
اپریل 1987ء میں آپ نے ڈنمارک کے تبلیغی دورے کے موقع پر عیسائی پادریوں سے مناظرہ کیا جس کا موضوع قرآن اور بائبل تھا آپ نے قرآن حکیم کی حقانیت کو ثابت کرتے ہوئے بائبل کے تضادات سے پردہ اٹھایا۔ اس مناظرے میں عیسائی پادریوں نے Show of hands کرکے اپنی شکست تسلیم کرلی جس کے نتیجے میں کئی عیسائی مسلمان ہوئے۔ اسی سال ستمبر میں آپ کے یورپ، امریکہ اور برطانیہ کے تبلیغی دورے کے دوران لارل، میری لینڈ (امریکہ) میں جامع مسجد منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا اور یونیورسٹی آف میری لینڈ میں آپ نے اسلام اور جدید سائنس کے موضوع پر تاریخی خطاب فرمایا اس موقع پر سلسلہ جراحی کے عظیم بزرگ حضرت خلیفہ نور صاحب بھی موجود تھے۔ اس تبلیغی دورے کے دوران آپ نے ٹورنٹو کی مشہور علمی شخصیت ڈاکٹر کیتھ مور سے بھی ملاقات کی جنہوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود تخلیق انسانی کے ارتقائی مراحل کو ذاتی تحقیقات کے نتیجے میں قرآن سے ثابت کرنے کا جرات مندانہ علمی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
1988ء میں آپ نے جناح ہال لاہور میں انٹرنیشنل مسلم لائرز فورم کے زیراہتمام خطبات لاہور دیئے۔ یہ خطابات نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ ان خطابات میں Well educated طبقہ نے بھرپور شرکت کی۔ ان خطبات کے موضوعات اسلام اورجدید سائنسی تحقیقات، اسلام اور جدید تصور قرآن، اسلام اور تصور معیشت وغیرہ تھے۔ جون 1988ء میں آپ نے عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کے کام کو نتیجہ خیز بنانے اور موثر طور پر بپا کرنے کے لئے لندن میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کی جو انٹرنیشنل ویمبلے کانفرنس کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس انٹرنیشنل کانفرنس کی صدارت حضور قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری البغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی جبکہ عالمی سطح کی اہم شخصیات کے علاوہ ملک پاکستان کے نامور علماء و مشائخ نے شرکت فرمائی۔ اسی کانفرنس میں الاتحاد العالمی الاسلامی کا قیام عمل میں آیا جس کے صدر کویت سے سلسلہ رفاعیہ کے الشیخ السید محمد یوسف ہاشم الرفاعی اور سیکرٹری جنرل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری منتخب ہوئے۔ اسی سال ستمبر میں جب مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے مسلمانوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا تو حضور شیخ الاسلام نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مباہلہ کے لئے اسے ایک کھلے خط کے ذریعے مینار پاکستان لاہور آنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی۔ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے شرکت فرمائی اور خصوصی خطاب حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فرمایا۔ اتمام حجت کے لئے مرزا طاہر قادیانی کا صبح فجر تک انتظار کیا گیا مگر وہ بدبخت نہ آیا اور اسلام کی فتح ہوئی۔ اس موقع پر ضیاء الامت حضرت پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی زیرصدارت اتحاد امت کے لئے 12 نکاتی فارمولا منظور کیا گیا۔
حضور شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر تبلیغی خدمات کے نتیجے میں اسی سال دسمبر 1988ء میں امریکہ کے معروف عیسائی مبلغ ڈاکٹر مارٹن ڈینیل نے طویل بحث و مباحثہ کے بعد لاہور میں حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر قبول اسلام کیا۔ جنوری 1989ء میں حضور شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر انہی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں پیراکی کے معروف اولمپک کوچ بارتواندرادے (سکاٹ لینڈ) مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن میں حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر دولت اسلام سے بہرہ یاب ہوئے۔ ماہ ستمبر 1989ء میں حضور شیخ الاسلام نے عصر حاضر کے عظیم صوفی بزرگ ابوانیس حضرت برکت علی لدھیانوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے ملاقات کی۔ بابا جی نے آپ کاپرتپاک خیر مقدم کیا اور آپ کی پیشانی کو چومتے ہوئے آپ کو امام وقت قرار دیا۔ نیز تحریک منہاج القرآن کی سرپرستی کا بھی اعلان فرمایا۔ ستمبر میں تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں عظیم الشان علماء کنونشن منعقد ہوا جس میں پنجاب بھر سے دو ہزار علماء نے باقاعدہ شرکت کرکے کامیاب بنایا۔ انہوں نے اس موقع پر علماء کونسل کی ممبرشپ حاصل کی۔ اگلے ماہ اکتوبر میں حضور شیخ الاسلام نے سرگودھا میں مصطفوی انقلاب کانفرنس سے خطاب کیا جس میں فرمایا کہ وہ اب تک تبلیغ دین کے لئے 50 لاکھ میل کا سفر طے کرچکے ہیں۔ آپ کی انہی تبلیغی خدمات کا نتیجہ تھا کہ اگست 1990ء میں ایک انگریز محقق کرسٹوفر نے حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر قبول اسلام کی سعادت حاصل کی۔ اگلے سال 1991ء میں ترکی میں سلسلہ نقشبندیہ کے معروف روحانی بزرگ السید الشیخ محمد ناظم عادل الحقانی، تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تشریف لائے اور حضور شیخ الاسلام سے خصوصی ملاقات کی۔ مارچ 1991ء میں حضور شیخ الاسلام نے مشن سے وابستہ علماء کرام اور دینی سکالرز کے لئے دس روزہ دراسات قرآن کا اہتمام فرمایا اور تحریک کے اپنے مبلغین تیار کئے۔ اسی سال جولائی اور اگست میں حضور شیخ الاسلام کا ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، بیلجیئم، جرمنی اور برطانیہ کا کامیاب ترین تبلیغی، دعوتی اور تنظیمی دورہ ہوا اور فرینکفرٹ (جرمنی) میں عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منعقد ہوئی اس دورہ کے دوران برطانیہ کے گیارہ شہروں میں تنظیمات قائم ہوئیں۔ اس کے بعد سکنڈے نیویا میں عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منعقد ہوئی جس میں آپ نے اسلام اور سائنس کے نہایت اہم موضوع پر خطاب فرمایا۔ اس دورے میں کشتی میں ایک سفر کے دوران سویڈن کے چند نوجوانوں نے حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ماہ نومبر میں آپ خلیجی ریاستوں کے تبلیغی دورے پر بھی تشریف لے گئے اور اپنے تفصیلی دورے کے دوران بھرپور انداز میں دین اسلام کی وکالت کی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض انفرادی اصلاح اور تعمیر شخصیت کے لئے نہیں بلکہ عالم دنیا پر دین اسلام کے غلبہ و استحکام کا عظیم مشن اورمقصد دیکر بھیجا تھا تاکہ ایک معتدل، متوازن اور عادلانہ و منصفانہ نظام قائم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے ساتھ ہی اس عظیم انقلاب کی بنیاد رکھ دی اور صرف ایک صدی کے اندر ہی یورپ، افریقہ اور ایشیا سمیت پوری دنیا میں ہمہ گیر اقتصادی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور علمی و تعلیمی انقلاب برپا ہوگیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی محدود علاقے یا افراد کے لئے نجات دہندہ بن کرجلوہ افروز نہیں ہوئے تھے بلکہ پوری انسانیت کی رہبرو رہنمائی اور اصلاح آپ کا فریضہ منصبی تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کو ’’رحمۃ للعلمین‘‘ کا ٹائیٹل دیا گیا اور اس عظیم عالمی انقلاب کے بعد بھی فلسفہ عروج و زوال کے مطابق دین اسلام کے دوبارہ احیاء کی بابت حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ارشاد فرمایا تھا:
لَايقُوْمُ بِدِيْنِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ اَحَاطَه مِنْ جَمِيْعِ جَوَانِبِه.
(دلائل النبوة لابی نعيم)
’’دین کو وہی شخص زندہ کرسکے گا جو دین کے تمام پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں داخل کرے گا‘‘۔
گویا موجودہ دورِ زوال کو پھر سے عروج آشنا کرنے کے لئے کسی ایسے مربی و رہنما اور عظیم قائد کی ضرورت تھی جس ہستی اور شخصیت کے اثرات دین اسلام کے صرف ایک دو پہلوؤں تک محدود نہ ہوں بلکہ بیک وقت وہ دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں لیکر میدان عمل میں اترا ہو۔ اس حوالے سے اگر عالم اسلام کی موجودہ علمی وفکری، اعتقادی و نظریاتی اور سیاسی و انقلابی قیادتوں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس میں ہمیں دین کی دعوت کی وسعت، جامعیت اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے ایک ایسی قیادت نظر آتی ہے جو مذکورہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصداق ہے۔ ان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ ان کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور عزم مصمم کی خوبصورت کڑی ہے۔ انہوں نے متعدد قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں لیکچر دے کر عصر نو میں اسلام کے احیاء اور ترویج و اشاعت کے لئے ذہنی اور فکری طور پر اپنی تبلیغی کاوشوں سے فضا کو ہموار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ آپ کی علمی قدرو منزلت کا معترف ہے اور اپنے پرائے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اگر ان کے اعزازات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اختصار کے پیش نظر چند اہم اعزازات درج کئے جاتے ہیں۔
1971ء میں آل پاکستان مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے آپ کو قائداعظم گولڈ میڈل سے نوازا۔
1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کیا اسی سال آپ کو پاکستان کلچرل گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔
1984ء میں ملی خدمات کے اعتراف میں کاروان شفقت پاکستان نے گولڈ میڈل کے ساتھ سند امتیاز بھی دی۔
اسی سال نمایاں خدمات کے صلے میں قرشی گولڈ میڈل کے علاوہ سند امتیاز دی گئی۔
انٹرنیشنل بائیو گرافیکل سنٹر (IBC ) آف کیمبرج انگلینڈ کی طرف سے تعلیم اور سماجی بہبود کیلئے دنیا بھر میں عظیم خدمات کے صلے میں پروفیسر صاحب کوThe International Man of the Year 1998-99 قرار دیا گیا ہے۔
امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا کے سب سے بڑے غیر حکومتی تعلیمی منصوبہ چلانے، 250 کتب (جبکہ اب کتابوں میں اب اضافہ ہوچکا ہے) کے مصنف ہونے، 5000 سے زائد موضوعات پر دنیا کے مختلف خطوں اور اداروں میں لیکچر ز دینے، تحریک منہاج القرآن کے بانی اور منہاج انٹر نیشنل یونیورسٹی کے چانسلر ہونے کی خدمات کے صلے میں’’دی انٹر نیشنل کلچرل ڈپلومہ آف آنر‘‘ (The International Cultural Diploma of Honour) دیا گیا۔
امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا بھر میں مختلف میدانوں میں معاشرے کیلئے غیر معمولی خدمات کے اعتراف پر (International Who's who of contemporary achievement) کے پانچویں ایڈیشن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر ایک باب شامل اشاعت کیا گیا ہے۔
بیسویں صدی کے International Who is Who کی طرف سے آپ کو Certificate of Recognition دیا گیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی میں موثر خدمات انجام دینے پر بیسویں صدی کا Achievement Award دیا گیا۔
امریکن بائیو گر افیکل انسٹیٹیوٹ (ABI) کی طرف سے آپ کو بیسویں صدی کی غیر معمولی شخصیت
(Outstanding Man of the 20th Century) کا خطاب دیا گیا۔
بیسویں صدی میں غیر معمولی علمی خدمات پر Leading Intellectual of the World کا خطاب دیا گیا۔
فروغ تعلیم کیلئے آپ کو بے مثال خدمات پر International Who is Who کی طرف سے Individual Achievement Award دیا گیا۔
بے مثال تحقیقی خدمات پر آپ کو A.B.I کی طرف سے Key of Success کا اعزاز دیا گیا۔
علاوہ ازیں قومی اور بین الاقوامی جامعات میں آپ کی فکر و شخصیت اور خدمات پر تحقیقی کام بھی ہورہے ہیں۔
اس عظیم شخصیت نے اپنی دعوت کی بنیاد قرآن مجید کو بنایا اور اپنے مشن اور تحریک کا نام ہی ’’منہاج القرآن‘‘ رکھا۔ گویا انہوں نے امت مسلمہ کو دعوت دی کہ آؤ ہم اپنے عقائد، معاملات، عبادات اور مکمل نظام زندگی کو قرآن پر پرکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو استوار کرتے ہیں۔
اس عظیم قائد نے امت مسلمہ کے مرض کا ایسا علاج تجویز کیا کہ جس میں اختلاف یا انکار کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔ گویا انہوں نے پوری قوم کو دعوت عام دی کہ آؤ ہم مردہ اقدار حیات کو پھر سے زندگی بخشیں اور انتشار و افتراق اور تفرقہ پرستی کی دلدل سے نکل کر پھر سے اتحاد امت اور وحدت و یگانگت کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔ اس دعوت عمل سے بالخصوص نوجوان طبقہ کو امید کی کرن دکھائی دی اور جوق در جوق اس قافلہ عشق و مستی میں شامل ہوتے گئے۔ تحریک منہاج القرآن بپا کرنے کے عزم صمیم کے ساتھ ہی تحریک کے جو چھ بنیادی عناصر تشکیل دیئے گئے ان میں رجوع الی القرآن کو بنیادی حیثیت حاصل تھی جس کے لئے اس عظیم قائد نے ملک عزیز کے طول و عرض میں دروس قرآن کا جال پھیلادیا اور جب TV پر پاکستان میں ’’فہم القرآن‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا اور 1992ء میں ابوظہبی اور متحدہ عرب امارات کے ٹیلیویژن پر انگریزی زبان میں Islam in focus اور Reflection of Quran کے موضوع پر خطابات نشر ہوئے تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر رونما ہوئے۔ اس طرح انہوں نے درج ذیل تین بنیادوں پر فروغ دعوت کا عمل کرکے فکری انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔
اسلام کی روحانی دعوت - Spiritual Presentation of Islam
اسلام کی عملی دعوت - Practical Presentation of Islam
اسلام کی سائنسی دعوت - Scientific Presentation of Islam
عالمگیر سطح پر اس دعوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی افکار و خیالات کا حامل آج کا نوجوان جو اپنے مسلمان ہونے پر نادم و شرمندہ تھا آج فخر کے ساتھ عقلی و نقلی بنیادوں پر اپنے اعتراضات کا تسلی بخش جواب پاکر دوبارہ سوئے منزل صراط مستقیم پر گامزن ہوا۔
اسی طرح جب اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فتنہ بپا ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبت و عشق، نسبت تعلق اور نسبت غلامی کو امتیازی حوالے سے باعث نزاع بنا دیا گیا اور دشمنان اسلام کی شعوری کوششوں کے نتیجے میں اکثر سادہ لوح مسلمان توحید کے زعم میں مبتلا ہوکر مرکز ایمان سے دور ہوگئے تو اس گمراہی میں پیش پیش نام نہاد علمائے دین شعوری یا غیر شعوری طور پر اس so called فتنے کا حصہ بن گئے۔ اس موقع پر اس عظیم قائد نے ایک بار پھر امت مسلمہ کے اس علاج کی تشخیص کرتے ہوئے اپنی دعوت کا عنوان ہی فروغ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا اور قرآن و حدیث، اسوہ صحابہ رضی اللہ عنھم و اہل بیت رضی اللہ عنھم، تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیھم کی تعلیمات کی روشنی میں اس قدر جانبدار مؤقف پیش کیا کہ فرقہ پرست اور انتشار پسند علماء کو یہ موضوع ترک کرنا پڑا اور محبت و اطاعت اور عشق و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناگزیریت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ
مغز قرآں، روح ایماں، جان دیں
ہست حب رحمۃ اللعلمین
یہی وجہ ہے کہ آپ کے وہ جلیل القدر اساتذہ جن کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ طے کیا اُن تمام عظیم المرتبت ہستیوں نے بلا استثنیٰ آپ کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لئے خصوصی توجہ اور تربیت سے نوازا جس کی وجہ سے آپ کم سنی میں ہی مرج البحرین یعنی جدید و قدیم علوم کے حامل اور جامع المعقول والمنقول بن کر ابھرے۔ عمر کے اس حصے میں آپ کی علمیت اور خطابت کا شہرہ چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ ان کے درس نظامی، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے سب اساتذہ کو معلوم تھا کہ یہ ذہین و فطین طالب علم ایک دن نام پیدا کرے گا کیونکہ اس میں عظیم شخصیت بننے کی غیر معمولی صلاحیتیں تھیں جنہوں نے دین متین کی خدمت اور اسے عروج آشنا کرنے کے کام آنا تھا۔
جن نامور شیوخ، جلیل القدر زعمائے ملت اور عظیم المرتبت اساتذہ کرام سے انہوں نے اکتساب علم اور اکتساب فیض کیا اور حکمت کے لولوئے آبدار سے اپنے دامن کو بھرا ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ (مرشد گرامی)
فریدالملت حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ (والد گرامی)
شیخ العرب والعجم حضرت علامہ محمد ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ
استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا عبدالرشید رضوی رحمۃ اللہ علیہ
استاذ العلماء حضرت علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ
غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
شارح بخاری حضرت علامہ مولانا غلام رسول رضوی
مفکر اسلام حضرت ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ
محقق عصر حضرت پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی
محدثِ حرم حضرت الشیخ السید محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ
ذیل میں ہم اس نابغۂ روزگار ہستی کی قومی اور بین الاقوامی تبلیغی خدمات کا مختصر جائزہ لیں گے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپریل 1978ء میں لاہور میں اپنے کیرئیر کا آغاز پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں بطور اسلامک لیکچرر کیا اس سے قبل گورنمنٹ کالج جھنگ اور پھر گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں اسلامک لیکچرر رہے۔ انہوں نے قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی میں بطور ایکسپرٹ بھی خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے مشیر کے طور پر بھی بہت سے مقدمات میں عدالت کی علمی طور پر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ 1984ء میں وہ ایپلٹ شریعت بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی مشیر فقہ مقرر ہوئے۔ اسی سال آپ نے مسلسل تین دن وفاقی شرعی عدالت میں رجم کے حد ہونے کی سزا کو ثابت کیا جس کے نتیجے میں مذکورہ عدالت نے رجم کے حد ہونے سے انکار پر مبنی فیصلے کو واپس لے لیا۔ اسی سال انہوں نے سلسلہ وار درس قرآن کا آغاز کیا۔ 1984ء ہی میں انہوں نے وفاقی شرعی عدالت میں پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت ثابت کرنے کے لئے دلائل دیئے۔ جس کی بناء پر عدالت نے قادیانیوں کی درخواست خارج کردی۔ 1984ء ہی میں آپ نے انتہائی ٹھوس اور مضبوط دلائل سے عورت کی پوری دیت کو ثابت کیا۔ اسی سال انہوں نے اوسلو (ناروے) کا پہلا تبلیغی دورہ کیا اور اوسلو میں بین الاقوامی اسلامک کانفرنس میں خطاب کیا۔ اس موقع پر کثیر تعداد میں عیسائی مسلمان ہوئے۔
دسمبر 1984ء میں انہوں نے متحدہ عرب امارات کا دعوتی و تبلیغی دورہ کیا اور اگلے سال مئی 1985ء میں وہ تبلیغی دورے پر ازبکستان تشریف لے گئے۔ 1986ء میں آپ امریکہ کے تبلیغی دورے پر تشریف لے گئے جس کے دوران انہوں نے نیویارک، واشنگٹن، لاس اینجلس، بالٹی مور اور لارل میں بھرپور خطابات کئے اور کئی غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کیا اس کے علاوہ نوجوان نسل کو دین اسلام سے روشناس کرایا۔ اسی سال انہوں نے ڈنمارک کا تبلیغی دورہ بھی کیا جہاں آپ کی تبلیغی خدمات کے نتیجے میں ادارہ منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا۔ 1987ء میں پہلی عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منہاج القرآن پارک ماڈل ٹاؤن میں منعقد ہوئی جس کی صدارت قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی اور خصوصی خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فرمایا۔ اس دوران تین چار گھنٹے کی مسلسل بارش کے باوجود پنڈال کے سامعین جم کر کانفرنس کی کاروائی سنتے رہے۔ اس فقیدالمثال کانفرنس میں جن عظیم روحانی شخصیات نے شرکت فرمائی ان میں حضرت پیر صاحب آف گولڑہ شریف، ضیاء الامت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت پیر سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ (کرمانوالہ شریف)، حضرت پیر سید محمد باقر علی (کیلیانوالہ شریف)، مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علامہ مولانا حامد سعید کاظمی، حضرت صاحبزادہ حاجی فضل کریم، حضرت علامہ شیخ گل (لنڈی کوتل) شامل ہیں۔
اپریل 1987ء میں آپ نے ڈنمارک کے تبلیغی دورے کے موقع پر عیسائی پادریوں سے مناظرہ کیا جس کا موضوع قرآن اور بائبل تھا آپ نے قرآن حکیم کی حقانیت کو ثابت کرتے ہوئے بائبل کے تضادات سے پردہ اٹھایا۔ اس مناظرے میں عیسائی پادریوں نے Show of hands کرکے اپنی شکست تسلیم کرلی جس کے نتیجے میں کئی عیسائی مسلمان ہوئے۔ اسی سال ستمبر میں آپ کے یورپ، امریکہ اور برطانیہ کے تبلیغی دورے کے دوران لارل، میری لینڈ (امریکہ) میں جامع مسجد منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا اور یونیورسٹی آف میری لینڈ میں آپ نے اسلام اور جدید سائنس کے موضوع پر تاریخی خطاب فرمایا اس موقع پر سلسلہ جراحی کے عظیم بزرگ حضرت خلیفہ نور صاحب بھی موجود تھے۔ اس تبلیغی دورے کے دوران آپ نے ٹورنٹو کی مشہور علمی شخصیت ڈاکٹر کیتھ مور سے بھی ملاقات کی جنہوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود تخلیق انسانی کے ارتقائی مراحل کو ذاتی تحقیقات کے نتیجے میں قرآن سے ثابت کرنے کا جرات مندانہ علمی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
1988ء میں آپ نے جناح ہال لاہور میں انٹرنیشنل مسلم لائرز فورم کے زیراہتمام خطبات لاہور دیئے۔ یہ خطابات نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ ان خطابات میں Well educated طبقہ نے بھرپور شرکت کی۔ ان خطبات کے موضوعات اسلام اورجدید سائنسی تحقیقات، اسلام اور جدید تصور قرآن، اسلام اور تصور معیشت وغیرہ تھے۔ جون 1988ء میں آپ نے عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کے کام کو نتیجہ خیز بنانے اور موثر طور پر بپا کرنے کے لئے لندن میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کی جو انٹرنیشنل ویمبلے کانفرنس کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس انٹرنیشنل کانفرنس کی صدارت حضور قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری البغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی جبکہ عالمی سطح کی اہم شخصیات کے علاوہ ملک پاکستان کے نامور علماء و مشائخ نے شرکت فرمائی۔ اسی کانفرنس میں الاتحاد العالمی الاسلامی کا قیام عمل میں آیا جس کے صدر کویت سے سلسلہ رفاعیہ کے الشیخ السید محمد یوسف ہاشم الرفاعی اور سیکرٹری جنرل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری منتخب ہوئے۔ اسی سال ستمبر میں جب مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے مسلمانوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا تو حضور شیخ الاسلام نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مباہلہ کے لئے اسے ایک کھلے خط کے ذریعے مینار پاکستان لاہور آنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی۔ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے شرکت فرمائی اور خصوصی خطاب حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فرمایا۔ اتمام حجت کے لئے مرزا طاہر قادیانی کا صبح فجر تک انتظار کیا گیا مگر وہ بدبخت نہ آیا اور اسلام کی فتح ہوئی۔ اس موقع پر ضیاء الامت حضرت پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی زیرصدارت اتحاد امت کے لئے 12 نکاتی فارمولا منظور کیا گیا۔
حضور شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر تبلیغی خدمات کے نتیجے میں اسی سال دسمبر 1988ء میں امریکہ کے معروف عیسائی مبلغ ڈاکٹر مارٹن ڈینیل نے طویل بحث و مباحثہ کے بعد لاہور میں حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر قبول اسلام کیا۔ جنوری 1989ء میں حضور شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر انہی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں پیراکی کے معروف اولمپک کوچ بارتواندرادے (سکاٹ لینڈ) مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن میں حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر دولت اسلام سے بہرہ یاب ہوئے۔ ماہ ستمبر 1989ء میں حضور شیخ الاسلام نے عصر حاضر کے عظیم صوفی بزرگ ابوانیس حضرت برکت علی لدھیانوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے ملاقات کی۔ بابا جی نے آپ کاپرتپاک خیر مقدم کیا اور آپ کی پیشانی کو چومتے ہوئے آپ کو امام وقت قرار دیا۔ نیز تحریک منہاج القرآن کی سرپرستی کا بھی اعلان فرمایا۔ ستمبر میں تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں عظیم الشان علماء کنونشن منعقد ہوا جس میں پنجاب بھر سے دو ہزار علماء نے باقاعدہ شرکت کرکے کامیاب بنایا۔ انہوں نے اس موقع پر علماء کونسل کی ممبرشپ حاصل کی۔ اگلے ماہ اکتوبر میں حضور شیخ الاسلام نے سرگودھا میں مصطفوی انقلاب کانفرنس سے خطاب کیا جس میں فرمایا کہ وہ اب تک تبلیغ دین کے لئے 50 لاکھ میل کا سفر طے کرچکے ہیں۔ آپ کی انہی تبلیغی خدمات کا نتیجہ تھا کہ اگست 1990ء میں ایک انگریز محقق کرسٹوفر نے حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر قبول اسلام کی سعادت حاصل کی۔ اگلے سال 1991ء میں ترکی میں سلسلہ نقشبندیہ کے معروف روحانی بزرگ السید الشیخ محمد ناظم عادل الحقانی، تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تشریف لائے اور حضور شیخ الاسلام سے خصوصی ملاقات کی۔ مارچ 1991ء میں حضور شیخ الاسلام نے مشن سے وابستہ علماء کرام اور دینی سکالرز کے لئے دس روزہ دراسات قرآن کا اہتمام فرمایا اور تحریک کے اپنے مبلغین تیار کئے۔ اسی سال جولائی اور اگست میں حضور شیخ الاسلام کا ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، بیلجیئم، جرمنی اور برطانیہ کا کامیاب ترین تبلیغی، دعوتی اور تنظیمی دورہ ہوا اور فرینکفرٹ (جرمنی) میں عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منعقد ہوئی اس دورہ کے دوران برطانیہ کے گیارہ شہروں میں تنظیمات قائم ہوئیں۔ اس کے بعد سکنڈے نیویا میں عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منعقد ہوئی جس میں آپ نے اسلام اور سائنس کے نہایت اہم موضوع پر خطاب فرمایا۔ اس دورے میں کشتی میں ایک سفر کے دوران سویڈن کے چند نوجوانوں نے حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ماہ نومبر میں آپ خلیجی ریاستوں کے تبلیغی دورے پر بھی تشریف لے گئے اور اپنے تفصیلی دورے کے دوران بھرپور انداز میں دین اسلام کی وکالت کی۔