شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ کے عقائد اور ان سے منسوب جھوٹ
شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے نام سے کون واقف نہیں۔علمی مرتبہ ،تقویٰ وللہیت اور تزکیۂ نفس کے حوالہ سے شیخ کی بے مثال خدمات چہار دانگ عالم میں عقیدت واحترام کے ساتھ تسلیم کی جاتی ہیں۔مگر شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے فرطِ عقیدت میں شیخ کی خدمات وتعلیمات کوپس پشت ڈال کر ایک ایسا متوازی دین وضع کر رکھا ہے جو نہ صرف قرآن وسنت کے صریح منافی ہے بلکہ خود شیخ کی مبنی بر حق تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اس پرطرہ یہ کہ اگر ان عقیدت مندوں کو ان کی غلو کاریاں سے آگاہ کیاجائے تو یہ نہ صرف یہ کہ اصلاح کرنے والوں پر برہم ہوتے ہیں بلکہ انہیں اولیاء ومشائخ کا گستاخ قرار دے کر مطعون کرنے لگتے ہیں۔ بہر حال ایک دینی واصلاحی فریضہ سمجھتے ہوئے راقم یہ مضمون لکھنے کی جسارت کر رہا ہے۔ اگر اس کے ذریعے ایک فرد کی بھی اصلاح ہو جائے تو اُمید ہے کہ وہ میری نجات کے لیے کافی ہو گا۔ ان شاء اللہ
مضمون ہذا کو بنیاد ی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ شیخ جیلانی ؒ کے سوانح حیات پرمشتمل ہے۔دوسرے حصہ میں شیخ کے عقائد ونظریات اور دینی تعلیمات کے بارے میں بحث کی گئی ہے جب کہ تیسرے حصہ میں ان غلط عقائد کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر عوام میں پھیلا رکھاہے۔
ابتدائی حالاتِ زندگی
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا پورا نام عبدالقادر بن ابی صالح عبداللہ بن جنکی دوست الجیلی (الجیلانی) ہے جبکہ آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے۔(دیکھئے: سیر اعلام النبلاء:۲۰؍۴۳۹)، (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)، (فوات الوفیات:۲؍۳۷۳)، (شذرات الذہب:۴؍۱۹۸)، علاوہ ازیںامام سمعانی نے آپ کا لقب 'امامِ حنابلہ' ذکر کیا ہے۔ (الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب:۱؍۲۹۱)
صاحب ِشذرات نے آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ بن علیؓ تک پہنچایا ہے۔ آپ ۴۷۱ھ (اور بقولِ بعض ۴۷۰ھ)میں جیلان میں پیدا ہوئے۔ (سیراعلام النبلاء، ایضاً) اور
''جیلان یا گیلان(کیلان) کو ویلم بھی کہا جاتا ہے، یہ ایران کے شمالی مغربی حصے کا ایک صوبہ ہے، اس کے شمال میں روسی سرزمین 'تالیس' واقع ہے، جنوب میں برز کا پہاڑی سلسلہ ہے جو اس کو آذربائیجان اور عراقِ عجم سے علیحدہ کرتا ہے۔ جنوب میں مازندان کا مشرقی حصہ ہے اور شمال میں بحرقزوین کا مغربی حصہ، وہ ایران کے بہت خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔'' (دائرۃ المعارف:۱۱؍۶۲۱بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت:۱؍۱۹۷)
علاقائی نسبت کی وجہ سے آپ کو جیلانی، گیلانی یاکیلانی کہا جاتاہے۔
تعلیم و تربیت
شیخ صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا تذکرہ کتب ِتواریخ میں نہیں ملتا، البتہ یہ بات مختلف مؤرخین نے بیان کی ہے کہ
''آپ اٹھارہ برس کی عمر میںتحصیل علم کے لئے بغداد روانہ ہوئے۔'' (اردو دائرۃ المعارف:۱۲؍۹۲۹)
امام ذہبی کا بھی یہی خیال ہے کہ آپ نوجوانی کی عمر میں بغداد آئے تھے۔ (سیر ایضاً)
علاوہ ازیں اپنے تحصیل علم کا واقعہ خود شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ
''میں نے اپنی والدہ سے کہا: مجھے خدا کے کام میں لگا دیجئے اور اجازت مرحمت کیجئے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔والدہ رونے لگیں، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پرقائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لئے بیرونِ خانہ تک آئیں اور فرمانے لگیں:
''تمہاری جدائی، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔''
(نفحات الانس ص:۵۸۷، از نورالدین جامی بحوالہ دائرۃ المعارف ،ایضاً)
شیوخ و تلامذہ
حافظ ذہبیؒ نے آپ کے شیوخ میں سے درج ذیل شیوخ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے:
''قاضی ابوسعد مخرمی، ابوغالب (محمد بن حسن) باقلانی، احمد بن مظفر بن سوس، ابوقاسم بن بیان، جعفر بن احمد سراج، ابوسعد بن خشیش، ابوطالب یوسفی وغیرہ'' (سِیَر:۲۰؍ ۰ ۴۴)
جبکہ دیگر اہل علم نے ابوزکریا یحییٰ بن علی بن خطیب تبریزی، ابوالوفا علی بن عقیل بغدادی، شیخ حماد الدباس کو بھی آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ ( دائرۃ المعارف، اُردو:۱۱؍۶۳۰)
علاوہ ازیں آپ کے درج ذیل معروف تلامذہ کو حافظ ذہبیؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے :
''ابو سعد سمعانی، عمر بن علی قرشی، شیخ موفق الدین ابن قدامہ، عبدالرزاق بن عبدالقادر، موسیٰ بن عبدالقادر (یہ دونوں شیخ کے صاحبزادگان سے ہیں)، علی بن ادریس، احمد بن مطیع ابوہریرہ، محمد بن لیث وسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابوطالب عبداللطیف بن محمد بن قبیطی وغیرہ''( ایضاً)
شیخ کی اولاد
امام ذہبیؒ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے بیٹے عبدالرزاق کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: «ولد لأبي تسعة وأربعون ولدا سبعة وعشرون ذکرا والباقي أناث» (سیر:۲۰؍۴۴۷ نیز دیکھئے:فوات الوفیات:۲؍۳۷۴)
''میرے والد کی کل اولاد ۴۹ تھی جن میں ۲۷ بیٹے اور باقی سب بیٹیاں تھیں۔''
شیخ کا حلقہ درس
شیخ نے تعلیم سے فراغت کے بعد دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا نصب ُالعین بنا لیا جس اخلاص وللہیت کے ساتھ آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ کے کام میں بے پناہ برکت ڈالی اور آپ کا حلقہ درس آپ کے دور کا سب سے بڑا تعلیمی و تربیتی حلقہ بن گیا۔حتیٰ کہ وقت کے حکمران، امراء و وزرا اور بڑے بڑے اہل علم بھی آپ کے حلقہ ٔ وعظ و نصیحت میں شرکت کو سعادت سمجھتے۔ جبکہ وعظ و نصیحت کا یہ سلسلہ جس میں خلق کثیر شیخ کے ہاتھوں توبہ کرتی، شیخ کی وفات تک جاری رہا۔ (سیر:۲۰؍۴۴۱)
حافظ ابن کثیر شیخ کی ان مصروفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ
''آپ نے بغداد آنے کے بعد ابوسعید مخرمی حنبلی ؒ سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابوسعید مخرمی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد کردیا۔ اس مدرسہ میں شیخ لوگوں کے ساتھ وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کی مجالس منعقدکرتے اور لوگ آپ سے بڑے مستفید ہوتے۔'' (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)
شیخ کی وفات:امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ''شیخ عبدالقادر ۹۰ سال زندہ رہے اور ۱۰؍ ربیع الآخر ۵۶۱ھ کو آپ فوت ہوئے۔'' (سیر:۲۰؍۴۵۰)
تالیفات و تصنیفات
شیخ جیلانی ؒ بنیادی طور پر ایک مؤثر واعظ و مبلغ تھے تاہم مؤرّخین نے آپ کی چند تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صاحب ِقلم بھی تھے۔ مگر اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیںہونی چاہئے کہ مؤرخین نے آپ کی جن تصنیفات کا احاطہ کیا ہے، وہ تمام فی الواقع آپ ہی کی تصنیفات تھیں بلکہ آپ کی ذاتی تصنیفات صرف تین ہیں جبکہ باقی کتابیں آپ کے بعض شاگردوں اور عقیدت مندوں نے تالیف کرکے آپ کی طرف منسوب کررکھی ہیں۔ اب ہم ان تمام کتابوں کا بالاختصار جائزہ لیتے ہیں :
1. غنیۃ الطالبین:اس کتاب کا معروف نام تو یہی ہے مگر اس کا اصل اوربذاتِ خود شیخ کا تجویز کردہ نام یہ ہے: الغنیۃ لطالبي طریق الحق یہ کتاب نہ صرف یہ کہ شیخ کی سب سے معروف کتاب ہے بلکہ شیخ کے افکار و نظریات پرمشتمل ان کی مرکزی تالیف بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں بعض لو گوں نے اسے شیخ کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار یا تردّد کا اظہار بھی کیاہے لیکن اس سے مجالِ انکار نہیں کہ یہ شیخ ہی کی تصنیف ہے جیساکہ حاجی خلیفہ اپنی کتاب 'کشف الظّنون' میں رقم طراز ہیں کہ''الغنیة لطالبي طریق الحق للشیخ عبد القادر الکیلاني الحسني المتوفی سنۃ۵۶۱ ھ إحدی وستین وخمس مائة'' (ص:۲؍۱۲۱۱)
''غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جو ۵۶۱ہجری میں فوت ہوئے، انہی کی کتاب ہے۔''
حافظ ابن کثیرؒ نے بھی اپنی تاریخ (البدایہ:۱۲؍۲۵۲) میں اور شیخ ابن تیمیہؒ نے اپنے فتاویٰ (ج۵؍ ص۱۵) میں اسے شیخ کی تصنیف تسلیم کیا ہے۔
2. فتوح الغیب:یہ کتاب شیخ کے ۷۸ مختلف مواعظ مثلاً توکل، خوف، اُمید، رضا، احوالِ نفس وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی شیخ کی کتاب ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ
''شیخ عبدالقادرؒ نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں بڑی بڑی اچھی باتیں ہیں، تاہم شیخ نے ان کتابوں میں بہت سی ضعیف اور موضوع روایات بھی درج کردی ہیں۔'' (البدایہ ایضاً اور دیکھئے کشف الظنون :۲؍۲۴۰)
3. الفتح الربانی والفیض الرحماني:یہ کتاب شیخ کے ۶۲ مختلف مواعظ پر مشتمل ہے، یہ بھی شیخ کی مستقل تصنیف ہے۔ (دیکھئے: الأعلام از زرکلی:۴؍ ۴۷)
4. الفیوضات الربانیۃ فی المآثر والأوراد القادریۃ:اس میں مختلف اوراد و وظائف جمع کئے گئے ہیں۔ اگرچہ بعض مؤرخین نے اسے شیخ کی طرف منسوب کیا ہے مثلاً دیکھئے الاعلام(ایضاً) مگر فی الحقیقت یہ آپ کی تصنیف نہیںبلکہ اسے اسمٰعیل بن سید محمد القادری نامی ایک عقیدت مند نے جمع کیا ہے جیسا کہ اس کے مطبوعہ نسخہ سے اس کی تائید ہوتی ہے اور ویسے بھی اس میں ایسے شرکیہ وظائف واَرواد اور بدعات وخرافات پر مبنی اذکارہیں کہ جن کا صدور شیخ سے ممکن ہی نہیں۔ واللہ أعلم
5. الأوراد القادریۃ:یہ کتاب بھی بعض قصائد و وظائف پر مبنی ہے۔ اسے محمد سالم بواب نے تیار کرکے شیخ کی طرف منسوب کردیا ہے حالانکہ اس میں موجود شرکیہ قصائد ہی اسے شیخ کی تصنیف قراردینے سے مانع ہیں۔
اس کے علاوہ بھی مندرجہ ذیل کتابوں کو آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے :
(۶) بشائر الخیرات (۷) تحفۃ المتقین وسبیل العارفین
(۸) الرسالۃ القادریۃ (۹) حزب الرجا والا نتہاء
(۱۰) الرسالۃ الغوثیۃ (۱۱) الکبریت الأحمرفی الصلاۃ علی النبیؐ
(۱۲) مراتب الوجود (۱۳) یواقیت الحکم
(۱۴) معراج لطیف المعاني
(۱۵) سرالأسرار ومظھر الأنوارفیما یحتاج إلیه الأبرار
(۱۶) جلاء الخاطر في الباطن والظاهر
(۱۷) آداب السلوك والتوصل إلی منازل الملوك
شیخ کی مندرجہ تصنیفات و تالیفات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :معجم المؤلفین: ۵؍۳۰۷، دائرۃ المعارف اردو:۱۱؍۹۳۲،ہدیۃ العارفین:۱؍۵۹۶، کشف الظنون بترتیب اسماء الکتب وغیرہ
شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے نام سے کون واقف نہیں۔علمی مرتبہ ،تقویٰ وللہیت اور تزکیۂ نفس کے حوالہ سے شیخ کی بے مثال خدمات چہار دانگ عالم میں عقیدت واحترام کے ساتھ تسلیم کی جاتی ہیں۔مگر شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے فرطِ عقیدت میں شیخ کی خدمات وتعلیمات کوپس پشت ڈال کر ایک ایسا متوازی دین وضع کر رکھا ہے جو نہ صرف قرآن وسنت کے صریح منافی ہے بلکہ خود شیخ کی مبنی بر حق تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اس پرطرہ یہ کہ اگر ان عقیدت مندوں کو ان کی غلو کاریاں سے آگاہ کیاجائے تو یہ نہ صرف یہ کہ اصلاح کرنے والوں پر برہم ہوتے ہیں بلکہ انہیں اولیاء ومشائخ کا گستاخ قرار دے کر مطعون کرنے لگتے ہیں۔ بہر حال ایک دینی واصلاحی فریضہ سمجھتے ہوئے راقم یہ مضمون لکھنے کی جسارت کر رہا ہے۔ اگر اس کے ذریعے ایک فرد کی بھی اصلاح ہو جائے تو اُمید ہے کہ وہ میری نجات کے لیے کافی ہو گا۔ ان شاء اللہ
مضمون ہذا کو بنیاد ی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ شیخ جیلانی ؒ کے سوانح حیات پرمشتمل ہے۔دوسرے حصہ میں شیخ کے عقائد ونظریات اور دینی تعلیمات کے بارے میں بحث کی گئی ہے جب کہ تیسرے حصہ میں ان غلط عقائد کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر عوام میں پھیلا رکھاہے۔
1.شیخ کے سوانح حیاتابتدائی حالاتِ زندگی
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا پورا نام عبدالقادر بن ابی صالح عبداللہ بن جنکی دوست الجیلی (الجیلانی) ہے جبکہ آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے۔(دیکھئے: سیر اعلام النبلاء:۲۰؍۴۳۹)، (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)، (فوات الوفیات:۲؍۳۷۳)، (شذرات الذہب:۴؍۱۹۸)، علاوہ ازیںامام سمعانی نے آپ کا لقب 'امامِ حنابلہ' ذکر کیا ہے۔ (الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب:۱؍۲۹۱)
صاحب ِشذرات نے آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ بن علیؓ تک پہنچایا ہے۔ آپ ۴۷۱ھ (اور بقولِ بعض ۴۷۰ھ)میں جیلان میں پیدا ہوئے۔ (سیراعلام النبلاء، ایضاً) اور
''جیلان یا گیلان(کیلان) کو ویلم بھی کہا جاتا ہے، یہ ایران کے شمالی مغربی حصے کا ایک صوبہ ہے، اس کے شمال میں روسی سرزمین 'تالیس' واقع ہے، جنوب میں برز کا پہاڑی سلسلہ ہے جو اس کو آذربائیجان اور عراقِ عجم سے علیحدہ کرتا ہے۔ جنوب میں مازندان کا مشرقی حصہ ہے اور شمال میں بحرقزوین کا مغربی حصہ، وہ ایران کے بہت خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔'' (دائرۃ المعارف:۱۱؍۶۲۱بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت:۱؍۱۹۷)
علاقائی نسبت کی وجہ سے آپ کو جیلانی، گیلانی یاکیلانی کہا جاتاہے۔
تعلیم و تربیت
شیخ صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا تذکرہ کتب ِتواریخ میں نہیں ملتا، البتہ یہ بات مختلف مؤرخین نے بیان کی ہے کہ
''آپ اٹھارہ برس کی عمر میںتحصیل علم کے لئے بغداد روانہ ہوئے۔'' (اردو دائرۃ المعارف:۱۲؍۹۲۹)
امام ذہبی کا بھی یہی خیال ہے کہ آپ نوجوانی کی عمر میں بغداد آئے تھے۔ (سیر ایضاً)
علاوہ ازیں اپنے تحصیل علم کا واقعہ خود شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ
''میں نے اپنی والدہ سے کہا: مجھے خدا کے کام میں لگا دیجئے اور اجازت مرحمت کیجئے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔والدہ رونے لگیں، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پرقائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لئے بیرونِ خانہ تک آئیں اور فرمانے لگیں:
''تمہاری جدائی، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔''
(نفحات الانس ص:۵۸۷، از نورالدین جامی بحوالہ دائرۃ المعارف ،ایضاً)
شیوخ و تلامذہ
حافظ ذہبیؒ نے آپ کے شیوخ میں سے درج ذیل شیوخ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے:
''قاضی ابوسعد مخرمی، ابوغالب (محمد بن حسن) باقلانی، احمد بن مظفر بن سوس، ابوقاسم بن بیان، جعفر بن احمد سراج، ابوسعد بن خشیش، ابوطالب یوسفی وغیرہ'' (سِیَر:۲۰؍ ۰ ۴۴)
جبکہ دیگر اہل علم نے ابوزکریا یحییٰ بن علی بن خطیب تبریزی، ابوالوفا علی بن عقیل بغدادی، شیخ حماد الدباس کو بھی آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ ( دائرۃ المعارف، اُردو:۱۱؍۶۳۰)
علاوہ ازیں آپ کے درج ذیل معروف تلامذہ کو حافظ ذہبیؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے :
''ابو سعد سمعانی، عمر بن علی قرشی، شیخ موفق الدین ابن قدامہ، عبدالرزاق بن عبدالقادر، موسیٰ بن عبدالقادر (یہ دونوں شیخ کے صاحبزادگان سے ہیں)، علی بن ادریس، احمد بن مطیع ابوہریرہ، محمد بن لیث وسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابوطالب عبداللطیف بن محمد بن قبیطی وغیرہ''( ایضاً)
شیخ کی اولاد
امام ذہبیؒ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے بیٹے عبدالرزاق کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: «ولد لأبي تسعة وأربعون ولدا سبعة وعشرون ذکرا والباقي أناث» (سیر:۲۰؍۴۴۷ نیز دیکھئے:فوات الوفیات:۲؍۳۷۴)
''میرے والد کی کل اولاد ۴۹ تھی جن میں ۲۷ بیٹے اور باقی سب بیٹیاں تھیں۔''
شیخ کا حلقہ درس
شیخ نے تعلیم سے فراغت کے بعد دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا نصب ُالعین بنا لیا جس اخلاص وللہیت کے ساتھ آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ کے کام میں بے پناہ برکت ڈالی اور آپ کا حلقہ درس آپ کے دور کا سب سے بڑا تعلیمی و تربیتی حلقہ بن گیا۔حتیٰ کہ وقت کے حکمران، امراء و وزرا اور بڑے بڑے اہل علم بھی آپ کے حلقہ ٔ وعظ و نصیحت میں شرکت کو سعادت سمجھتے۔ جبکہ وعظ و نصیحت کا یہ سلسلہ جس میں خلق کثیر شیخ کے ہاتھوں توبہ کرتی، شیخ کی وفات تک جاری رہا۔ (سیر:۲۰؍۴۴۱)
حافظ ابن کثیر شیخ کی ان مصروفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ
''آپ نے بغداد آنے کے بعد ابوسعید مخرمی حنبلی ؒ سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابوسعید مخرمی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد کردیا۔ اس مدرسہ میں شیخ لوگوں کے ساتھ وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کی مجالس منعقدکرتے اور لوگ آپ سے بڑے مستفید ہوتے۔'' (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)
شیخ کی وفات:امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ''شیخ عبدالقادر ۹۰ سال زندہ رہے اور ۱۰؍ ربیع الآخر ۵۶۱ھ کو آپ فوت ہوئے۔'' (سیر:۲۰؍۴۵۰)
تالیفات و تصنیفات
شیخ جیلانی ؒ بنیادی طور پر ایک مؤثر واعظ و مبلغ تھے تاہم مؤرّخین نے آپ کی چند تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صاحب ِقلم بھی تھے۔ مگر اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیںہونی چاہئے کہ مؤرخین نے آپ کی جن تصنیفات کا احاطہ کیا ہے، وہ تمام فی الواقع آپ ہی کی تصنیفات تھیں بلکہ آپ کی ذاتی تصنیفات صرف تین ہیں جبکہ باقی کتابیں آپ کے بعض شاگردوں اور عقیدت مندوں نے تالیف کرکے آپ کی طرف منسوب کررکھی ہیں۔ اب ہم ان تمام کتابوں کا بالاختصار جائزہ لیتے ہیں :
1. غنیۃ الطالبین:اس کتاب کا معروف نام تو یہی ہے مگر اس کا اصل اوربذاتِ خود شیخ کا تجویز کردہ نام یہ ہے: الغنیۃ لطالبي طریق الحق یہ کتاب نہ صرف یہ کہ شیخ کی سب سے معروف کتاب ہے بلکہ شیخ کے افکار و نظریات پرمشتمل ان کی مرکزی تالیف بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں بعض لو گوں نے اسے شیخ کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار یا تردّد کا اظہار بھی کیاہے لیکن اس سے مجالِ انکار نہیں کہ یہ شیخ ہی کی تصنیف ہے جیساکہ حاجی خلیفہ اپنی کتاب 'کشف الظّنون' میں رقم طراز ہیں کہ''الغنیة لطالبي طریق الحق للشیخ عبد القادر الکیلاني الحسني المتوفی سنۃ۵۶۱ ھ إحدی وستین وخمس مائة'' (ص:۲؍۱۲۱۱)
''غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جو ۵۶۱ہجری میں فوت ہوئے، انہی کی کتاب ہے۔''
حافظ ابن کثیرؒ نے بھی اپنی تاریخ (البدایہ:۱۲؍۲۵۲) میں اور شیخ ابن تیمیہؒ نے اپنے فتاویٰ (ج۵؍ ص۱۵) میں اسے شیخ کی تصنیف تسلیم کیا ہے۔
2. فتوح الغیب:یہ کتاب شیخ کے ۷۸ مختلف مواعظ مثلاً توکل، خوف، اُمید، رضا، احوالِ نفس وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی شیخ کی کتاب ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ
''شیخ عبدالقادرؒ نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں بڑی بڑی اچھی باتیں ہیں، تاہم شیخ نے ان کتابوں میں بہت سی ضعیف اور موضوع روایات بھی درج کردی ہیں۔'' (البدایہ ایضاً اور دیکھئے کشف الظنون :۲؍۲۴۰)
3. الفتح الربانی والفیض الرحماني:یہ کتاب شیخ کے ۶۲ مختلف مواعظ پر مشتمل ہے، یہ بھی شیخ کی مستقل تصنیف ہے۔ (دیکھئے: الأعلام از زرکلی:۴؍ ۴۷)
4. الفیوضات الربانیۃ فی المآثر والأوراد القادریۃ:اس میں مختلف اوراد و وظائف جمع کئے گئے ہیں۔ اگرچہ بعض مؤرخین نے اسے شیخ کی طرف منسوب کیا ہے مثلاً دیکھئے الاعلام(ایضاً) مگر فی الحقیقت یہ آپ کی تصنیف نہیںبلکہ اسے اسمٰعیل بن سید محمد القادری نامی ایک عقیدت مند نے جمع کیا ہے جیسا کہ اس کے مطبوعہ نسخہ سے اس کی تائید ہوتی ہے اور ویسے بھی اس میں ایسے شرکیہ وظائف واَرواد اور بدعات وخرافات پر مبنی اذکارہیں کہ جن کا صدور شیخ سے ممکن ہی نہیں۔ واللہ أعلم
5. الأوراد القادریۃ:یہ کتاب بھی بعض قصائد و وظائف پر مبنی ہے۔ اسے محمد سالم بواب نے تیار کرکے شیخ کی طرف منسوب کردیا ہے حالانکہ اس میں موجود شرکیہ قصائد ہی اسے شیخ کی تصنیف قراردینے سے مانع ہیں۔
اس کے علاوہ بھی مندرجہ ذیل کتابوں کو آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے :
(۶) بشائر الخیرات (۷) تحفۃ المتقین وسبیل العارفین
(۸) الرسالۃ القادریۃ (۹) حزب الرجا والا نتہاء
(۱۰) الرسالۃ الغوثیۃ (۱۱) الکبریت الأحمرفی الصلاۃ علی النبیؐ
(۱۲) مراتب الوجود (۱۳) یواقیت الحکم
(۱۴) معراج لطیف المعاني
(۱۵) سرالأسرار ومظھر الأنوارفیما یحتاج إلیه الأبرار
(۱۶) جلاء الخاطر في الباطن والظاهر
(۱۷) آداب السلوك والتوصل إلی منازل الملوك
شیخ کی مندرجہ تصنیفات و تالیفات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :معجم المؤلفین: ۵؍۳۰۷، دائرۃ المعارف اردو:۱۱؍۹۳۲،ہدیۃ العارفین:۱؍۵۹۶، کشف الظنون بترتیب اسماء الکتب وغیرہ