شیخ عبد القادر جیلانی ؒ سے متعلق مزید منسوب اور من گھڑت باتیں
شیخ کے بارے میں ایسی جھوٹی باتیں منسوب ہیں کہ شیخ تمام ولیوں کے سردار تھے۔ بلکہ شیخ کی طرف یہ بات بھی منسوب کی گئی ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ ''قدمَيّ ھذہ علی رقبۃ کل ولی اﷲ'' '' میرا پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔''
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہاں تک دعویٰ کیا گیا ہے کہ شیخ کو خود آنحضرتؐ نے 'خرقہ' (صوفیا کا مخصوص زاہدانہ لباس) پہنا کر اس عالی شان مقامِ ولایت پر فائز فرمایا تھا اور آپ کی ولایت کا یہ مقام تھاکہ حضرت خضر سمیت تمام انبیاء کرام اور صحابہ کرام بھی آپ کی مجلس میں شرکت کی سعادت سے بہرہ مند ہوا کرتے تھے۔
یہ تمام باتیں بھجۃ الأسرار اور قلا ئد الجواہر جیسی اُن غیر معتبر کتابوں میں موجود ہیں جن کی استنادی حیثیت ہم خوب واضح کرچکے ہیں۔ تاہم دورِ حاضر میں عملی طور پر ان سلاسل سے وابستہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ کسی سلسلہ میں داخل ہوئے بغیر اور کسی پیرومرشد کو پکڑے بغیر نجات مشکل ہے اور بیعت کرکے کسی سلسلہ میں محض داخل ہوجانا ہی نجات کے لئے کافی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سلسلوں میں داخل کرنے والے اب خود ہی ایسے گمراہانہ عقائد کا شکار ہیں کہ الامان والحفیظ...! بلکہ وہ اپنے مریدوںکو بھی اس طرح کی تعلیم دیتے ہیں جو قرآن و سنت کے صریح مخالف ہے۔ حتیٰ کہ بعض نام نہاد پیرو مشائخ تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اگر تم اپنے شیخ کو خلافِ شرع حالت میں بھی دیکھو تو شیخ کے بارے میں بدگمانی کی بجائے یہی سمجھو کہ تمہیں دیکھنے، سننے اور سمجھنے میں غلطی لگی ہے ...!!
البتہ شیخ عبدالقادر جیلانی اور ان کے مابعد کے اَدوار میں جب ایسے سلسلوں کی بنیاد پڑی تھی تو اس وقت صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ اس دور میں سرکاری طور پر اسلام نافذ العمل تھا، جہاد جاری تھا اور کفر و شرک ہر طرف سرنگوں تھا، البتہ روحانی طور پر مسلمانوں میں کمیاں، کوتاہیاں پائی جاتی تھیں اور زہد و تقویٰ کی بجائے عیش و عشرت اور خواہش پرستی کی وبا چہار سو پھیلتی جارہی تھی جس کے آگے بند باندھنے اور روحانیت کو زندہ کرنے کے لئے اولیا نے میدانِ عمل میں قدم رکھا۔ تزکیۂ نفس اور تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کئے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق زہد و تقویٰ کے دیے جلائے۔ اُس دور میں اکثر و بیشتر زہاد و صوفیا کے کم از کم عقائد درست رہے تاہم عملی طور پر بعض مسائل میں یہ بھی غلو اور افراط کا شکار ہوتے گئے۔ جن میں سے ایک یہ مسئلہ بھی تھا کہ اولیاء و مشائخ کے پاس ہر شخص کا حاضر ہو کر 'سلوک' کی منزلیں طے کرنا فرض ہے جیسا کہ شیخ جیلانی خود رقم طراز ہیں کہ
''فلابد لکل مرید اﷲ عزوجل من شیخ'' (الغنیۃ:۲؍۲۸۱)
''ہر مرید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا ایک شیخ ۔(پیر)لازم پکڑے۔''
پھر جب مرید سلوک کی منازل طے کرکے شیخ و مرشد کے درجے پر پہنچ جاتا تو اسے ایک مخصوص قسم کا موٹا لباس جسے 'خرقہ' کہا جاتا، پہنا دیا جاتا اور یہ اس بات کی علامت سمجھا جاتا کہ اب یہ شخص مریدوں کی تربیت کرنے کے لائق ہوچکا ہے اور اسے تزکیۂ نفس کے لئے کسی اور علاقے میں بھیج دیا جاتا۔ یہ طریقہ چونکہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں تھا، اس لئے ائمہ محققین نے اس کی بھرپور تردید کی۔ بطورِ مثال ابن تیمیہ کا ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے۔ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں کہ
''وأما لباس الخرقة التي یلبسھا بعض المشائخ المریدین فھذہ لیس لھا أصل یدل علیھا الدلائل المعتبرة من جھة الکتاب والسنة ولا کان المشائخ المتقدمون وأکثر المتأخرین یلبسونھا المریدین'' ''مریدوں کو'خرقہ' پہننانے کی رسم جسے بعض مشائخ ادا کرتے ہیں، یہ سراسر بے بنیاد ہے۔کتاب وسنت کے معتبر دلائل میں اس کا کوئی وجود نہیں۔متقدم مشائخ بلکہ اکثر متاخر مشائخ بھی ایسا کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ متاخرین میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا تھا جو اسے نہ صرف جائز بلکہ مستحب سمجھتا تھا...''
پھر ابن تیمیہ اس ضمن میں پیش کئے جانے والے دلائل کی کمزوری واضح کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ''رہی یہ بات کہ کوئی گروہ اپنے آپ کو کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرے، تو اس سلسلہ میںگذارش ہے کہ ایمان و قرآن سیکھنے کے لئے لوگ یقینا ان علما کے محتاج ہیں جو انہیں اس کی تعلیم دیں مثلاً جس طرح صحابہ کرامؓ نے نبی اکرم ﷺسے پھر صحابہ سے تابعین نے اور ان سے تبع تابعین وغیرہ نے علم حاصل کیا۔ علاوہ ازیں جس طرح کسی عالم سے کوئی شخص قرآنِ مجید وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتاہے، اسی طرح اس سے ظاہر و باطن (تزکیۂ نفس) کی بھی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ لیکن اس کے لئے کسی عالم (شیخ، ولی، پیر وغیرہ) کو متعین نہیںکرنا چاہئے اور نہ ہی انسان اس بات کا محتاج ہے کہ وہ لازماً اپنے آپ کو کسی متعین شیخ کی طرف منسوب کرے بلکہ ہر وہ شخص جس کے ذریعے اسے کوئی دینی فائدہ پہنچے، وہ اس فائدہ پہنچانے میں اس کا شیخ ہی ہے۔ بلکہ اگر کسی فوت شدہ انسان کا کوئی ایسا قول یا عمل اسے پہنچے جس سے اسے دینی اعتبار سے فائدہ ہو تو وہ فوت شدہ شخص بھی اس جہت سے اس کا شیخ ہے۔ اس لئے امت کے سلف صالحین نسل در نسل خلف (بعد والوں) کے لئے شیوخ ہی متصور ہوں گے۔
اسی طرح کسی کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے شیخ کی طرف نسبت کرے جو صرف اپنی پیروی (بیعت) کرنے والے سے دوستی اور دوسروں (بیعت نہ کرنے والوں) سے دشمنی رکھتا ہو بلکہ انسان کو چاہئے کہ ہر اس شخص سے جو اہل ِایمان ہے اور ہر اس شیخ، عالم وغیرہ جس کا زہد و تقویٰ معروف ہے، سے دوستی رکھے اور اس کے باوجود خصوصی دوستی کے لئے کسی ایک (شیخ)کو خاص نہ کرے، اِلاکہ اس کا خصوصی تقویٰ اور ایمان اس کے لئے ظاہر ہو، اور اپنی ترجیحات میں صرف اسے مقدم رکھے جسے اللہ اور اس کا رسول (یعنی قرآن و حدیث) مقدم کریں اور اسے ہی اَفضلیت دے جسے اللہ اوراس کے رسول (قرآن و حدیث) فضیلت سے نوازیں۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے : ﴿ي۔ٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقن۔ٰكُم مِن ذَكَرٍ وَأُنثىٰ وَجَعَلن۔ٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَفوا ۚ إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣﴾... سورة الحجرات
'' اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک(ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں کنبے اور قبیلے اس لیے بنا دیا تا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانو۔بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔''
اور ارشادِ نبوی ہے کہ''لا فضل لعربي علی عجمي ولا لعجمي علی عربي ولا أسود علی أبیض ولا أبیض علی أسود إلا بالتقوٰی'' (مجموع الفتاویٰ: ج۱۱؍ص۵۱۱،۵۱۲)
'' کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی سیاہ کو کسی سفید پر یا کسی سفید کو کسی سیاہ پر سوائے تقوی کے اور (کسی لحاظ سے بھی) کوئی فضیلت ومرتبہ حاصل نہیں ہے۔''
شیخ کے بارے میں ایسی جھوٹی باتیں منسوب ہیں کہ شیخ تمام ولیوں کے سردار تھے۔ بلکہ شیخ کی طرف یہ بات بھی منسوب کی گئی ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ ''قدمَيّ ھذہ علی رقبۃ کل ولی اﷲ'' '' میرا پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔''
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہاں تک دعویٰ کیا گیا ہے کہ شیخ کو خود آنحضرتؐ نے 'خرقہ' (صوفیا کا مخصوص زاہدانہ لباس) پہنا کر اس عالی شان مقامِ ولایت پر فائز فرمایا تھا اور آپ کی ولایت کا یہ مقام تھاکہ حضرت خضر سمیت تمام انبیاء کرام اور صحابہ کرام بھی آپ کی مجلس میں شرکت کی سعادت سے بہرہ مند ہوا کرتے تھے۔
یہ تمام باتیں بھجۃ الأسرار اور قلا ئد الجواہر جیسی اُن غیر معتبر کتابوں میں موجود ہیں جن کی استنادی حیثیت ہم خوب واضح کرچکے ہیں۔ تاہم دورِ حاضر میں عملی طور پر ان سلاسل سے وابستہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ کسی سلسلہ میں داخل ہوئے بغیر اور کسی پیرومرشد کو پکڑے بغیر نجات مشکل ہے اور بیعت کرکے کسی سلسلہ میں محض داخل ہوجانا ہی نجات کے لئے کافی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سلسلوں میں داخل کرنے والے اب خود ہی ایسے گمراہانہ عقائد کا شکار ہیں کہ الامان والحفیظ...! بلکہ وہ اپنے مریدوںکو بھی اس طرح کی تعلیم دیتے ہیں جو قرآن و سنت کے صریح مخالف ہے۔ حتیٰ کہ بعض نام نہاد پیرو مشائخ تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اگر تم اپنے شیخ کو خلافِ شرع حالت میں بھی دیکھو تو شیخ کے بارے میں بدگمانی کی بجائے یہی سمجھو کہ تمہیں دیکھنے، سننے اور سمجھنے میں غلطی لگی ہے ...!!
البتہ شیخ عبدالقادر جیلانی اور ان کے مابعد کے اَدوار میں جب ایسے سلسلوں کی بنیاد پڑی تھی تو اس وقت صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ اس دور میں سرکاری طور پر اسلام نافذ العمل تھا، جہاد جاری تھا اور کفر و شرک ہر طرف سرنگوں تھا، البتہ روحانی طور پر مسلمانوں میں کمیاں، کوتاہیاں پائی جاتی تھیں اور زہد و تقویٰ کی بجائے عیش و عشرت اور خواہش پرستی کی وبا چہار سو پھیلتی جارہی تھی جس کے آگے بند باندھنے اور روحانیت کو زندہ کرنے کے لئے اولیا نے میدانِ عمل میں قدم رکھا۔ تزکیۂ نفس اور تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کئے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق زہد و تقویٰ کے دیے جلائے۔ اُس دور میں اکثر و بیشتر زہاد و صوفیا کے کم از کم عقائد درست رہے تاہم عملی طور پر بعض مسائل میں یہ بھی غلو اور افراط کا شکار ہوتے گئے۔ جن میں سے ایک یہ مسئلہ بھی تھا کہ اولیاء و مشائخ کے پاس ہر شخص کا حاضر ہو کر 'سلوک' کی منزلیں طے کرنا فرض ہے جیسا کہ شیخ جیلانی خود رقم طراز ہیں کہ
''فلابد لکل مرید اﷲ عزوجل من شیخ'' (الغنیۃ:۲؍۲۸۱)
''ہر مرید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا ایک شیخ ۔(پیر)لازم پکڑے۔''
پھر جب مرید سلوک کی منازل طے کرکے شیخ و مرشد کے درجے پر پہنچ جاتا تو اسے ایک مخصوص قسم کا موٹا لباس جسے 'خرقہ' کہا جاتا، پہنا دیا جاتا اور یہ اس بات کی علامت سمجھا جاتا کہ اب یہ شخص مریدوں کی تربیت کرنے کے لائق ہوچکا ہے اور اسے تزکیۂ نفس کے لئے کسی اور علاقے میں بھیج دیا جاتا۔ یہ طریقہ چونکہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں تھا، اس لئے ائمہ محققین نے اس کی بھرپور تردید کی۔ بطورِ مثال ابن تیمیہ کا ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے۔ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں کہ
''وأما لباس الخرقة التي یلبسھا بعض المشائخ المریدین فھذہ لیس لھا أصل یدل علیھا الدلائل المعتبرة من جھة الکتاب والسنة ولا کان المشائخ المتقدمون وأکثر المتأخرین یلبسونھا المریدین'' ''مریدوں کو'خرقہ' پہننانے کی رسم جسے بعض مشائخ ادا کرتے ہیں، یہ سراسر بے بنیاد ہے۔کتاب وسنت کے معتبر دلائل میں اس کا کوئی وجود نہیں۔متقدم مشائخ بلکہ اکثر متاخر مشائخ بھی ایسا کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ متاخرین میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا تھا جو اسے نہ صرف جائز بلکہ مستحب سمجھتا تھا...''
پھر ابن تیمیہ اس ضمن میں پیش کئے جانے والے دلائل کی کمزوری واضح کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ''رہی یہ بات کہ کوئی گروہ اپنے آپ کو کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرے، تو اس سلسلہ میںگذارش ہے کہ ایمان و قرآن سیکھنے کے لئے لوگ یقینا ان علما کے محتاج ہیں جو انہیں اس کی تعلیم دیں مثلاً جس طرح صحابہ کرامؓ نے نبی اکرم ﷺسے پھر صحابہ سے تابعین نے اور ان سے تبع تابعین وغیرہ نے علم حاصل کیا۔ علاوہ ازیں جس طرح کسی عالم سے کوئی شخص قرآنِ مجید وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتاہے، اسی طرح اس سے ظاہر و باطن (تزکیۂ نفس) کی بھی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ لیکن اس کے لئے کسی عالم (شیخ، ولی، پیر وغیرہ) کو متعین نہیںکرنا چاہئے اور نہ ہی انسان اس بات کا محتاج ہے کہ وہ لازماً اپنے آپ کو کسی متعین شیخ کی طرف منسوب کرے بلکہ ہر وہ شخص جس کے ذریعے اسے کوئی دینی فائدہ پہنچے، وہ اس فائدہ پہنچانے میں اس کا شیخ ہی ہے۔ بلکہ اگر کسی فوت شدہ انسان کا کوئی ایسا قول یا عمل اسے پہنچے جس سے اسے دینی اعتبار سے فائدہ ہو تو وہ فوت شدہ شخص بھی اس جہت سے اس کا شیخ ہے۔ اس لئے امت کے سلف صالحین نسل در نسل خلف (بعد والوں) کے لئے شیوخ ہی متصور ہوں گے۔
اسی طرح کسی کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے شیخ کی طرف نسبت کرے جو صرف اپنی پیروی (بیعت) کرنے والے سے دوستی اور دوسروں (بیعت نہ کرنے والوں) سے دشمنی رکھتا ہو بلکہ انسان کو چاہئے کہ ہر اس شخص سے جو اہل ِایمان ہے اور ہر اس شیخ، عالم وغیرہ جس کا زہد و تقویٰ معروف ہے، سے دوستی رکھے اور اس کے باوجود خصوصی دوستی کے لئے کسی ایک (شیخ)کو خاص نہ کرے، اِلاکہ اس کا خصوصی تقویٰ اور ایمان اس کے لئے ظاہر ہو، اور اپنی ترجیحات میں صرف اسے مقدم رکھے جسے اللہ اور اس کا رسول (یعنی قرآن و حدیث) مقدم کریں اور اسے ہی اَفضلیت دے جسے اللہ اوراس کے رسول (قرآن و حدیث) فضیلت سے نوازیں۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے : ﴿ي۔ٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقن۔ٰكُم مِن ذَكَرٍ وَأُنثىٰ وَجَعَلن۔ٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَفوا ۚ إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣﴾... سورة الحجرات
'' اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک(ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں کنبے اور قبیلے اس لیے بنا دیا تا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانو۔بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔''
اور ارشادِ نبوی ہے کہ''لا فضل لعربي علی عجمي ولا لعجمي علی عربي ولا أسود علی أبیض ولا أبیض علی أسود إلا بالتقوٰی'' (مجموع الفتاویٰ: ج۱۱؍ص۵۱۱،۵۱۲)
'' کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی سیاہ کو کسی سفید پر یا کسی سفید کو کسی سیاہ پر سوائے تقوی کے اور (کسی لحاظ سے بھی) کوئی فضیلت ومرتبہ حاصل نہیں ہے۔''