فارقلیط رحمانی
لائبریرین
علامہ ابن جوزی چھٹی صدی ہجری کے ایک مشہور عالم ، واعظ اور مصنف ہیں۔ آپ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب تلبیس ابلیس میں شیطان کے پھندوں کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح شیطا ن انسان پر حملہ آور ہوتا اور اسے راہ راست سے ہٹا دیتا ہے۔ اسی کتاب میں انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی جگہ پر ایک بہت عابد اور زاہد شخص رہا کرتا تھا۔ وہ ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہتا اور دنیاوی کاموں سے کوئی رغبت نہ رکھتا تھا۔ ایک دن اس کے محلے کا ایک شخص اس کے پا س آیا اور اس سے کہا کہ و ہ اس کی بہن کے کھانے پینے کا ذمہ لے لے کیونکہ کچھ دنوں کے لیے وہ شہر سے باہر جارہا ہے۔ اس عابد نے حامی بھرلی۔
اب ہوتا یوں کہ ہر روز وہ لڑکی اس زاہد کے معبد میں کھانے کے وقت آتی اور دروازہ کھٹکھٹاتی۔ عابد دروازے کی اوٹ ہی سے اسے وہ کھانا دے دیتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن شیطان نے عابد کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ وہ لڑکی اتنی دور سے چل کر آتی ہے ، دس لوگ اسے دیکھتے ہیں ۔ تو اسے تکلیف سے بچانے کے لیے کیوں نہ عابد ہی اس کے گھر پر کھانا پہنچا دیا کرے۔ عابد کو لڑکی سے بڑی ہمدردی محسوس ہوئی اور اس نے یہی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔چنانچہ اب عابد روزانہ اس کے دروازے پر دستک دیتا اور لڑکی اوٹ سے کھانا لے لیتی اور عابد واپس چلا جاتا۔
پھر شیطان نے مزید وسوسہ ڈالا کہ یہ لڑکی اکیلی ہے ، اس کی دلجوئی کے لیے کیوں نہ دروازے پر کھڑے کھڑے اس سے بات کرلی جائے۔ اس طرح اس کا دل بہل جائے گا۔ اس مرتبہ بھی عابد نے عقل کی بجائے وسوسے پر عمل کیا اور وہ لڑکی سے باتیں کرنے لگا۔ جب کچھ دن گذرے تو شیطان نے سجھایا کہ اس طرح باہر کھڑے ہوکر باتیں کرنا تو مناسب نہیں، چار لوگ دیکھتے ہیں۔ بہتر ہے گھر میں بیٹھ کر دلجوئی کرلی جائے، آخر حرج ہی کیا ہے؟ تو عابد اب گھر کے اندر آکر اس لڑکی سے بات چیت میں مشغول ہوگیا۔
پھر شیطان کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی اور عابد بالآخر زنا کر بیٹھا جس کے نتیجے میں ایک بچہ بھی پیدا ہوگیا۔اب شیطان نے اسے سجھایا کہ یہ تونے کیا کردیا، تیری ساری عبادت ریاضت کے باوجود لوگ تجھے مار ڈالیں گے، اگر جان پیاری ہے تو یہ کام تو خود کر۔ پھر کیا تھا، عابد نے لڑکی اور بچے دونوں کو قتل کرکے اسی مکان کے نیچے دفن کردیا۔
کچھ عرصے بعد اس لڑکی کا بھائی واپس آیا اور اس لڑکی بارے میں پوچھا۔ عابد نے کہہ دیا کہ وہ ایک بیماری کا شکار ہوگئی تھی اس لیے وہ مرگئی اور اسے قبرستان میں دفنادیا گیا ہے۔ بھائی روپیٹ کر خاموش ہوگیا کیونکہ اسے عابد پر یقن تھا۔ ایک دن شیطان اس بھائی کے خواب میں آیا اور یہ دکھایا کہ اس کی بہن کی لاش اسی مکان کے نیچے دفن ہے اور اس کابچہ بھی ہے اور یہ کام عابد نے کیا ہے۔ بھائی نے جب کھدائی کی تو ساری حقیقت سامنے آگئی۔ اس نے عابد کو قتل کردیا۔ یوں شیطان نے ایک تیر سے کئی شکار کرلیے۔
یہ ایک حکایت ہے۔ اس کا اطلاق اگر ہم آج اپنی سوسائٹی میں کریں تو شیطان مختلف ہتھیاروں سے لیس ہوکر عورتوں اور مردوں کو ورغلا رہا ہے کہ وہ اپنے رب کی نافرمانی کریں۔مثال کے طور پر وہ تعلیمی اداروں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ورغلاتا ہے وہ ایک دوسرے کو غلط نگاہ دیکھیں اور بہانہ یہی کہ اس سے کیا ہوتا ہےصرف دیکھ ہی تو رہے ہیں۔جب اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ایک دوسرے کے دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ ایک نوجوان صنف مخالف کی معمولی تکلیف پر بھی اس سے ہمدردی محسوس کرتا اور اسے دور کرنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ حیلہ وہی کہ یہ تو ایک اچھا کام ہے۔
اگلے مرحلے میں بات چیت کا آغاز ہوتا ہے جس کے پیچھے یہی محرک ہے کہ بات چیت میں کیا حرج ہے ، یہ تو ماڈرن دور ہے، زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے ورنہ لوگ دقیانوسی سمجھیں گے۔ اس کے بعد فون پر گفتگو، چیٹنگ، ایس۔ ایم۔ ایس۔ کا تبادلہ اور نوبت ملاقاتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ان سب باتوں کے باوجود ضروری نہیں کہ اس کا منطقی انجام زنا ہی ہو۔ ممکن ہے اس اختلاط کا انجام نکاح ہی ہو لیکن بہر حال شیطان ان طلبا کو اچھے کیرئیر، صالح اخلاق، یکسوئی، اور ماں باپ کی فرمانبرداری سے تو بالعموم محروم کر ہی دیتا ہے۔ اس کے برعکس منتشر خیالی، بے مقصدیت، وقت کا ضیاع، اعضاء کا گناہ اور خداکی نافرمانی کے واقعات رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ محفلیں شراب و کباب کی محفلوں تک لے جاتی ہیں تو کبھی رقابتیں قتل وغارت گری کو جنم دیتی ہیں۔
ایک مرتبہ مجھے ایک صاحب نے سوال کیا کہ وہ اپنی کلاس فیلو سے شدید محبت کرتے ہیں اور اس سے اظہارمحبت کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے یہ یقین دلا یا کہ یہ محبت بالکل سچی ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف نکاح کرنا ہے اور کچھ نہیں۔ چنانچہ انہین بات چیت کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ اپنے دل کا حال محترمہ کو بتاسکیں اور کچھ ان کی سن سکیں۔ میں نے انہیں کہا کہ اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے ، اور وہ یہ کہ اپنے بزرگ عزیز و اقارب ذریعے بات چیت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے اور میرے لیے یہ فی الوقت ممکن نہیں۔ میں نے کہا تو کیا ہوا نکاح کی عمر تو آپ کی بھی ہے اور اس کی بھی، رشتہ طے کرلیں بعد میں شادی ہوجائے گی۔میں انہیں کہتا رہا کہ آپ کسی معتبر واسطے کے ذریعے بات چیت کریں کیونکہ براہ راست بات کرنے میں کئی فساد برپا ہونے کااندیشہ ہے لیکن وہ نہ مانے اور مجھ سے بات چیت منقطع کردی۔
بہر حال شیطان نے ہر مزاج کے لوگوں کے لیے پھندے تیار کررکھے ہیں۔ان سب باتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان مجبور محض ہے اور شیطان کو کھلی چھٹی ہے۔ قرآن کے مطابق شیطان کا کام صرف ورغلانا اور وسوسے پیدا کرنا ہے اور بس۔ شیطان کسی کو ہاتھ پکڑ کر مجبور نہیں کرسکتا۔ اسی لیے جو بھی شیطان کے جھانسے میں آگیا تو وہ خود اپنے کیے کا ذمہ دار ہے۔ آخر میں شیطان یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ میں تمہارے عمل سے بری ہوں ۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ شیطان کے وسوسوں کو پہچانیں اور اس کے جھانسے سے بچنے کے لیے کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اس کا تجزیہ کریں اور اپنے رب کی منشا معلوم کریں۔ اگر وہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں درست تو آگے بڑھیں ورنہ اسے شیطان کے منہ پر دے ماریں۔ یہ بلاشبہ ایک مشکل کام ہے لیکن صالح صحبت، قرآن کا فہم ، اچھی کتب کا مطالعہ ، اپنی شخصیت کا ادراک ، اپنے نفس پر قابو پانا اور اپنے رب سے مسلسل دعا شیطان کے حملوں سے بچنے کے لیے اکسیر ہے۔ اس جنگ میں ابتدا ہی سے ہتھیار ڈال دینا اپنی زندگی شیطان کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔
اب ہوتا یوں کہ ہر روز وہ لڑکی اس زاہد کے معبد میں کھانے کے وقت آتی اور دروازہ کھٹکھٹاتی۔ عابد دروازے کی اوٹ ہی سے اسے وہ کھانا دے دیتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن شیطان نے عابد کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ وہ لڑکی اتنی دور سے چل کر آتی ہے ، دس لوگ اسے دیکھتے ہیں ۔ تو اسے تکلیف سے بچانے کے لیے کیوں نہ عابد ہی اس کے گھر پر کھانا پہنچا دیا کرے۔ عابد کو لڑکی سے بڑی ہمدردی محسوس ہوئی اور اس نے یہی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔چنانچہ اب عابد روزانہ اس کے دروازے پر دستک دیتا اور لڑکی اوٹ سے کھانا لے لیتی اور عابد واپس چلا جاتا۔
پھر شیطان نے مزید وسوسہ ڈالا کہ یہ لڑکی اکیلی ہے ، اس کی دلجوئی کے لیے کیوں نہ دروازے پر کھڑے کھڑے اس سے بات کرلی جائے۔ اس طرح اس کا دل بہل جائے گا۔ اس مرتبہ بھی عابد نے عقل کی بجائے وسوسے پر عمل کیا اور وہ لڑکی سے باتیں کرنے لگا۔ جب کچھ دن گذرے تو شیطان نے سجھایا کہ اس طرح باہر کھڑے ہوکر باتیں کرنا تو مناسب نہیں، چار لوگ دیکھتے ہیں۔ بہتر ہے گھر میں بیٹھ کر دلجوئی کرلی جائے، آخر حرج ہی کیا ہے؟ تو عابد اب گھر کے اندر آکر اس لڑکی سے بات چیت میں مشغول ہوگیا۔
پھر شیطان کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی اور عابد بالآخر زنا کر بیٹھا جس کے نتیجے میں ایک بچہ بھی پیدا ہوگیا۔اب شیطان نے اسے سجھایا کہ یہ تونے کیا کردیا، تیری ساری عبادت ریاضت کے باوجود لوگ تجھے مار ڈالیں گے، اگر جان پیاری ہے تو یہ کام تو خود کر۔ پھر کیا تھا، عابد نے لڑکی اور بچے دونوں کو قتل کرکے اسی مکان کے نیچے دفن کردیا۔
کچھ عرصے بعد اس لڑکی کا بھائی واپس آیا اور اس لڑکی بارے میں پوچھا۔ عابد نے کہہ دیا کہ وہ ایک بیماری کا شکار ہوگئی تھی اس لیے وہ مرگئی اور اسے قبرستان میں دفنادیا گیا ہے۔ بھائی روپیٹ کر خاموش ہوگیا کیونکہ اسے عابد پر یقن تھا۔ ایک دن شیطان اس بھائی کے خواب میں آیا اور یہ دکھایا کہ اس کی بہن کی لاش اسی مکان کے نیچے دفن ہے اور اس کابچہ بھی ہے اور یہ کام عابد نے کیا ہے۔ بھائی نے جب کھدائی کی تو ساری حقیقت سامنے آگئی۔ اس نے عابد کو قتل کردیا۔ یوں شیطان نے ایک تیر سے کئی شکار کرلیے۔
یہ ایک حکایت ہے۔ اس کا اطلاق اگر ہم آج اپنی سوسائٹی میں کریں تو شیطان مختلف ہتھیاروں سے لیس ہوکر عورتوں اور مردوں کو ورغلا رہا ہے کہ وہ اپنے رب کی نافرمانی کریں۔مثال کے طور پر وہ تعلیمی اداروں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ورغلاتا ہے وہ ایک دوسرے کو غلط نگاہ دیکھیں اور بہانہ یہی کہ اس سے کیا ہوتا ہےصرف دیکھ ہی تو رہے ہیں۔جب اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ایک دوسرے کے دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ ایک نوجوان صنف مخالف کی معمولی تکلیف پر بھی اس سے ہمدردی محسوس کرتا اور اسے دور کرنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ حیلہ وہی کہ یہ تو ایک اچھا کام ہے۔
اگلے مرحلے میں بات چیت کا آغاز ہوتا ہے جس کے پیچھے یہی محرک ہے کہ بات چیت میں کیا حرج ہے ، یہ تو ماڈرن دور ہے، زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے ورنہ لوگ دقیانوسی سمجھیں گے۔ اس کے بعد فون پر گفتگو، چیٹنگ، ایس۔ ایم۔ ایس۔ کا تبادلہ اور نوبت ملاقاتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ان سب باتوں کے باوجود ضروری نہیں کہ اس کا منطقی انجام زنا ہی ہو۔ ممکن ہے اس اختلاط کا انجام نکاح ہی ہو لیکن بہر حال شیطان ان طلبا کو اچھے کیرئیر، صالح اخلاق، یکسوئی، اور ماں باپ کی فرمانبرداری سے تو بالعموم محروم کر ہی دیتا ہے۔ اس کے برعکس منتشر خیالی، بے مقصدیت، وقت کا ضیاع، اعضاء کا گناہ اور خداکی نافرمانی کے واقعات رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ محفلیں شراب و کباب کی محفلوں تک لے جاتی ہیں تو کبھی رقابتیں قتل وغارت گری کو جنم دیتی ہیں۔
ایک مرتبہ مجھے ایک صاحب نے سوال کیا کہ وہ اپنی کلاس فیلو سے شدید محبت کرتے ہیں اور اس سے اظہارمحبت کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے یہ یقین دلا یا کہ یہ محبت بالکل سچی ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف نکاح کرنا ہے اور کچھ نہیں۔ چنانچہ انہین بات چیت کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ اپنے دل کا حال محترمہ کو بتاسکیں اور کچھ ان کی سن سکیں۔ میں نے انہیں کہا کہ اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے ، اور وہ یہ کہ اپنے بزرگ عزیز و اقارب ذریعے بات چیت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے اور میرے لیے یہ فی الوقت ممکن نہیں۔ میں نے کہا تو کیا ہوا نکاح کی عمر تو آپ کی بھی ہے اور اس کی بھی، رشتہ طے کرلیں بعد میں شادی ہوجائے گی۔میں انہیں کہتا رہا کہ آپ کسی معتبر واسطے کے ذریعے بات چیت کریں کیونکہ براہ راست بات کرنے میں کئی فساد برپا ہونے کااندیشہ ہے لیکن وہ نہ مانے اور مجھ سے بات چیت منقطع کردی۔
بہر حال شیطان نے ہر مزاج کے لوگوں کے لیے پھندے تیار کررکھے ہیں۔ان سب باتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان مجبور محض ہے اور شیطان کو کھلی چھٹی ہے۔ قرآن کے مطابق شیطان کا کام صرف ورغلانا اور وسوسے پیدا کرنا ہے اور بس۔ شیطان کسی کو ہاتھ پکڑ کر مجبور نہیں کرسکتا۔ اسی لیے جو بھی شیطان کے جھانسے میں آگیا تو وہ خود اپنے کیے کا ذمہ دار ہے۔ آخر میں شیطان یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ میں تمہارے عمل سے بری ہوں ۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ شیطان کے وسوسوں کو پہچانیں اور اس کے جھانسے سے بچنے کے لیے کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اس کا تجزیہ کریں اور اپنے رب کی منشا معلوم کریں۔ اگر وہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں درست تو آگے بڑھیں ورنہ اسے شیطان کے منہ پر دے ماریں۔ یہ بلاشبہ ایک مشکل کام ہے لیکن صالح صحبت، قرآن کا فہم ، اچھی کتب کا مطالعہ ، اپنی شخصیت کا ادراک ، اپنے نفس پر قابو پانا اور اپنے رب سے مسلسل دعا شیطان کے حملوں سے بچنے کے لیے اکسیر ہے۔ اس جنگ میں ابتدا ہی سے ہتھیار ڈال دینا اپنی زندگی شیطان کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔
آخری تدوین: