محمد شکیل عطاری
محفلین
شیطان کیوں پیدا کیا گیا؟
خدا تعالیٰ حکیم مطلق ہے اور فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَا یَخْلُوْا عَنِ الْحِکْمَۃِ کے مطابق حکیم کا کوئی کام خالی از حکمت نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا ہے مبنی بر حکمت ہے۔کسی چیز کو بھی دیکھیے تو یو کہئے:
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً
اے رب ہمارے تو نے اسے بیکار نہیں بنایا
حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے کیمیائے سعادت میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چھت پر چھپکلی کو دیکھا اور خدا سے پوچھا، الٰہی! تو نے چھپکلی کو کیوں بنایا؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ! تم سے پہلے یہ چھپکلی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ الٰہی! تم نے موسیٰ کو کیوں بنایا؟
میرے کلیم! میں نے جو کچھ بنایا ہے مبنی بر حکمت ہی پیدا فرمایا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انما الاشیاء تعرف باضدادھا ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ یعنی مٹھاس جبھی معلوم ہوسکتی ہے جب کڑواہٹ بھی ہو۔ صحت کی قدر اسی وقت معلوم ہو سکتی ہے جبکہ بیماری بھی ہو۔ خوشبو کا علم اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ بدبو بھی ہو۔ ایک پہلوان اپنی ہمت و طاقت کا مظاہرہ اسی وقت کر سکتا ہے جبکہ اس کے مقابل میں کوئی دوسرا پہلوان بھی ہو۔ پہلوان کسی دوسرےپہلوان کو گرا کر ہی پہلوان کہلاتا ہے۔ اگر مقابل میں کوئی پہلوان نہ ہو تو یہ گرائے گاکسے؟ اور اگر گرائے گا کسی کو نہیں تو پہلوان کہلائے گا کیسے؟ اس لئے ضروری ہے کہ پہلوان سے ٹکر لینے والا بھی کوئی ہو۔ ٹکرانے والے کی وجہ سے پہلوان کے کمالات کا اظہار ہو سکے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات ہم پڑھتے سنتے آئے ہیں۔ آپ کے عصا مبارک کا سانپ بن جانا اور فرعون کے ہزاروں جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو ایک بار ہی نگل جانا اور آپ کے دست مبارک کا چمک اٹھنا وغیرہ ان معجزات و کمالات کا ظہور فرعون کی وجہ سے ہوا۔ فرعون اگر نہ ہوتا تو ان معجزات کا ظہور بھی نہ ہوتا۔ یعنی ان معجزات کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ان معجزات اور موسیٰ علیہ السلام کےکمالات کے اظہار کے لئے ایک منکر کا وجود ضروری جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کرتا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کمالات کا اظہار ہوتا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرعون کو پیدا فرمایا۔ اوراس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کی اور اس کی مخالفت کے باعث حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات وکمالات کا ظہور ہوا۔ (جاری ہے…)