یوسف-2
محفلین
ایک شیعہ عالم نے کہ ان کا بھلا سا نام ہے، خوب کہی،وہ نماز ظہرین سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ صحافیوں نے ان پر یلغار کی۔ٹیلی ویژن کی مجبوری یہ ہے کہ اسے اپنے ناظرین کو دکھانے کے لیے کوئی نہ کوئی مصالحہ بہر صورت درکار ہوتا ہے۔چوبیس گھنٹے کی نشریات کا پیٹ بھرنے کے لیے چونکہ بہت محنت کرنا پڑتی ہے اس لیے اس کا آسان علاج یہ ہے کہ جو سامنے آئے،مائیک اس کے سامنے کردیا۔دس محرم کو بھی یہی ہوا اور ان عالم نے اپنے پوٹھو ہاری لہجے میں خوب بات کہی۔فرمایا کہ شیعہ سنی اختلاف کیا معنی؟یہ اختلاف جس کا بہت تذکرہ ہوتا ہے، وجود ہی کہاں رکھتا ہے۔انھوں نے یہ کہاپھرفوراً ہی ایک مثال پیش کی۔ کہا کہ یہ جو ڈھوک سیداں کا سانحہ ہوا ہے، کیا اس میں صرف شیعہ ہی مارے گئے؟ پھرانھوں نے خود ہی کہا کہ نہیں ، مارے جانے والوں میں صرف شیعہ نہ تھے، سنی بھی تھے۔اتنا کہتے کہتے انھیں ڈیرہ اسمعٰیل خان کا بم دھماکہ بھی یاد آیا اور کیا خوب یاد آیا کہ یہ مثال ڈھوک سیداں سے بھی بڑھ کر تھی۔انھوں نے بتا یا کہ اُس شہر میں نو محرم کوجو سات افراد شہید ہوئے تھے،ان میں چار سنی تھے اور تین شیعہ۔اچھا ہوا کہ ا ن کی معرفت سے یہ باتیں ریکارڈ پر آئیں۔ہمارے ذرائع ابلاغ کا معاملہ بھی عجب ہے، بے احتیاطی کرے تو جی بھر کر کرتا ہے اورخوش قسمتی سے احتیاط کا دامن تھام لے توبھی اس کے رنگ دیکھنے والے ہوتے ہیں۔
یہ آٹھویں دہائی کے وسط کی بات ہے جب کراچی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی جاں بحق ہوئی۔اس سانحے کے بعد فسادات ہو گئے۔طالبہ کو کچلنے والی بس کا ڈرائیور بدقسمتی سے پشتون تھا ،اس لیے شہر میں پشتون مہاجر کشیدگی پیدا ہو گئی یا کردی گئی ۔کر دی گئی میں نے اس لیے کہا کہ یہ حادثہ تھا جسے بنیاد بنا کر شہر میں لسانی سیاست کی بنا رکھی گئی اور متحدہ قومی موومنٹ نے زور پکڑا۔ شہر میں کبھی مہاجر کا خون بہتا اور کبھی پشتون کا۔علی گڑھ کالونی پر تو اتنا برا وقت آیا کہ ظالموں نے اسے جلا ڈالا اور جانے کتنے ہی بے گناہ انسان اس ظلم کا شکار ہوئے۔اس زمانے میں پی ٹی وی ہواکرتاتھا،لہٰذا اصل خبر چلانا اس کا مسئلہ نہ تھا،اصل مشکل اخبارات کی تھی جنہیں اپنے قارئین کو حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے فسادات کی پوری تفصیل بتانی پڑتی۔اس زمانے میں حکومت کا کنٹرول بھی اخبارات پر کافی تھا،اکثر ایڈوائس بھی آجایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس کی وجہ سے حقائق چھپانے بھی پڑتے تھے۔ ایسے میں اخبارات خود بھی بہت احتیاط سے کام لیا کرتے اور اس خیال سے کہ کہیں حملہ آوروں یا مرنے والوں کی لسانی شناخت بتا دی تو کہیں فسادات مزید پھیل نہ جائیں۔یہ اسی زمانے کی احتیاط کا اثر ہے کہ اب آزادی کے اس دور میں بھی میڈیا فرقہ وارانہ ایسے حادثات میں حملہ آوروں اور مارے جانے والوں کی شناخت کم ہی بتاتا ہے ۔ایک اعتبار سے یہ احتیاط اچھی بھی ہے لیکن کبھی کبھی یہ غلط بھی ہوجاتی ہے جیسے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے دھماکے میں تھی ۔اچھا ہوا کہ اس عالم نے یہ بات ٹیلی ویژن پربتا دی اور یوں پورے پاکستان کو پتہ چل گیا کہ اصل میں شیعہ سنی جھگڑا کوئی نہیں بلکہ یہ کوئی اور ہے جو اس طرح آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ کوئی اور کون ہے؟کل ہی ٹیلی ویژن پر ایک اور عالم دین نے عجب بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ یہ جھگڑا علماء کی سطح پر نہیں بلکہ عوام کی سطح پر ہے ۔دلیل ان کی یہ تھی کہ عالم دین تو کبھی ایسی بات نہیں کرتا جس سے فساد پھیلے لیکن نچلی سطح پر یعنی عوام کے ذہنوں میں بعض اوقات کوئی خلش ہوتی ہے جوچنگاری سے شعلہ بنتی ہے۔یہیں سے فساد پھوٹتا ہے۔ممکن ہے کہ ان کی بات کسی پہلو سے درست ہو لیکن اگر یہ بات درست ہوتی تو پھر اس ملک کی گلی گلی میں فساد ہوتا ۔ایسا ہرگز نہیں اور شاید بعض قوتوں نے ایسی کوشش بھی کر دیکھی ہے لیکن انھیں کامیابی نہ ہوسکی ۔یہ قوتیں اپنی مذموم کوششوں میں کامیاب کیوں نہ ہو سکیں؟ یہ راز بھی اس شیعہ عالم نے بتا دیا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ جو ہم عزاداری کرتے ہیں اور تعزیہ داری کرتے ہیں ،صرف ہم ہی تو نہیں کرتے ،اس میں تو سنی بھی ہمارے شانہ بشانہ ہو تے ہیں۔یہ بات انھوں نے درست کہی۔ایک زمانہ تھا کہ اپنے دیس میں ماتمی جلوس صرف شیعہ کے لیے ہی مخصوص نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں سنی بھی ایک حد تک شریک ہوا کرتے تھے۔کسی ماتمی جلوس کی ترتیب ذہن میں لائیے،اس کے قلب میں تو یہی سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنے والے نوجوان ہوا کرتے تھے۔ان کے ارد گرد زیادہ عمر کے لوگ ہوتے یا یوں سمجھئے ذرا کم جذباتی لوگ ہواکرتے جو دھیرے دھیرے ہاتھ کے اشارے سے ماتم میں شریک ہوتے ۔یہ لوگ ماتمی جلوس کا یوں سمجھئے کنارہ ہوا کرتے تھے ۔اس کنارے کا بھی ایک کنارہ ہوتا تھا۔یہ لوگ سنی ہوا کرتے تھے جن کے دل سیدنا حسینؓ کی یاد میں بھر آتے اور وہ گھروں سے نکل آتے یا اپنے شہر کے ماتم گساروں کو یقین دلانے کے لیے ساتھ چلتے کہ دیکھو ! اس غم میں تم تنہا نہیں ہو۔ یہ معاملہ جلوسوں میں بھی ہوتا اور مجالس عزا میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے لیکن بعد میں جب تشدد شروع ہوا تو جلوسوں کی سکیورٹی بڑھ گئی ۔پہلا انتظام تو خود عزا داروں نے کیا جو ایک بڑی سی رسی کو جلوس کے گرد لپیٹ لیتے کہ کوئی شر پسند اندر داخل نہ ہوسکے۔ دوسرا انتظام سکیورٹی فورسز کاتھا ۔اب نوبت یہ ہے کہ ان جلوسوں میں کوئی غیر شیعہ داخل نہیں ہو سکتا۔اب نہ تعزیہ دیکھنے کے شوقین تعزیہ دیکھنے جا سکتے ہیں اور نہ دکھ میں شراکت کا احساس پیدا کرنے کی کوئی صورت ہے۔اس سے نہ صرف باہمی ربط و ضبط ختم یا کم ہوا ہے بلکہ اس سے دوریاں پیدا کرنے والوں کا کام بھی نسبتاً آسان ہوا ہے۔یہ البتہ غنیمت ہے کہ ابھی تک عوامی سطح پر وہ کیفیات پیدا نہیں ہوئی ہیں جس کے نتیجے عوام ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہو تے ہیں۔
رہ گئی یہ بات کہ پھر تناؤ کی وجہ کیا ہے۔ بات تھوڑی کڑوی ہے مگرحقیقت ہے کہ دونوں کے طرف کے علماء یا علماء کے لبادے میں وہ جو کوئی بھی ہوتے ہیں ،خرابی پیدا کرتے ہیں اور مٹھی بھر ان کے پیرو کار سارا سال نفرت پھیلانا جن کا کاروبار ہے، نفرت پھیلاتے ہیں۔ ان دو عوامل کے ساتھ اب ایک تیسرا عامل بھی سرگرم عمل ہوگیا ہے جو مسلح ہے اور دھماکے کرتا ہے۔بات اب یوں بنی کہ پہلے دو عناصر فضامکدر کرتے ہیں اور آخری فریق حالات سازگار پاکر واردات کر تا ہے۔ہم اگر خواہ شیعہ ہوں یاسنی اپنی صفوں میں نفرت پھیلانے والوں کا سوشل بائیکاٹ کر کے اسے تنہا کرڈالیں تو ممکن ہے کہ وہ اپنے طرز عمل کے بارے میں از سرنو غور کر سکے اور وہ اپنی اصلاح کر نے پر آمادہ ہو جائے۔اس کے بعد صرف ایک ہی چیلنج رہ جائے گا مسلح عنصر کا۔اس کے ساتھ حکومت اور عوام مل کر زیادہ آسانی کے ساتھ دو دو ہاتھ کرسکتے ہیں۔بس ذرا ہمت کی ضرورت ہے۔ ذرا ہمت چاہئے۔ (فاروق عادل کا کالم، روزنامہ نئی بات 82 نومبر 2012 ء)
یہ آٹھویں دہائی کے وسط کی بات ہے جب کراچی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی جاں بحق ہوئی۔اس سانحے کے بعد فسادات ہو گئے۔طالبہ کو کچلنے والی بس کا ڈرائیور بدقسمتی سے پشتون تھا ،اس لیے شہر میں پشتون مہاجر کشیدگی پیدا ہو گئی یا کردی گئی ۔کر دی گئی میں نے اس لیے کہا کہ یہ حادثہ تھا جسے بنیاد بنا کر شہر میں لسانی سیاست کی بنا رکھی گئی اور متحدہ قومی موومنٹ نے زور پکڑا۔ شہر میں کبھی مہاجر کا خون بہتا اور کبھی پشتون کا۔علی گڑھ کالونی پر تو اتنا برا وقت آیا کہ ظالموں نے اسے جلا ڈالا اور جانے کتنے ہی بے گناہ انسان اس ظلم کا شکار ہوئے۔اس زمانے میں پی ٹی وی ہواکرتاتھا،لہٰذا اصل خبر چلانا اس کا مسئلہ نہ تھا،اصل مشکل اخبارات کی تھی جنہیں اپنے قارئین کو حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے فسادات کی پوری تفصیل بتانی پڑتی۔اس زمانے میں حکومت کا کنٹرول بھی اخبارات پر کافی تھا،اکثر ایڈوائس بھی آجایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس کی وجہ سے حقائق چھپانے بھی پڑتے تھے۔ ایسے میں اخبارات خود بھی بہت احتیاط سے کام لیا کرتے اور اس خیال سے کہ کہیں حملہ آوروں یا مرنے والوں کی لسانی شناخت بتا دی تو کہیں فسادات مزید پھیل نہ جائیں۔یہ اسی زمانے کی احتیاط کا اثر ہے کہ اب آزادی کے اس دور میں بھی میڈیا فرقہ وارانہ ایسے حادثات میں حملہ آوروں اور مارے جانے والوں کی شناخت کم ہی بتاتا ہے ۔ایک اعتبار سے یہ احتیاط اچھی بھی ہے لیکن کبھی کبھی یہ غلط بھی ہوجاتی ہے جیسے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے دھماکے میں تھی ۔اچھا ہوا کہ اس عالم نے یہ بات ٹیلی ویژن پربتا دی اور یوں پورے پاکستان کو پتہ چل گیا کہ اصل میں شیعہ سنی جھگڑا کوئی نہیں بلکہ یہ کوئی اور ہے جو اس طرح آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ کوئی اور کون ہے؟کل ہی ٹیلی ویژن پر ایک اور عالم دین نے عجب بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ یہ جھگڑا علماء کی سطح پر نہیں بلکہ عوام کی سطح پر ہے ۔دلیل ان کی یہ تھی کہ عالم دین تو کبھی ایسی بات نہیں کرتا جس سے فساد پھیلے لیکن نچلی سطح پر یعنی عوام کے ذہنوں میں بعض اوقات کوئی خلش ہوتی ہے جوچنگاری سے شعلہ بنتی ہے۔یہیں سے فساد پھوٹتا ہے۔ممکن ہے کہ ان کی بات کسی پہلو سے درست ہو لیکن اگر یہ بات درست ہوتی تو پھر اس ملک کی گلی گلی میں فساد ہوتا ۔ایسا ہرگز نہیں اور شاید بعض قوتوں نے ایسی کوشش بھی کر دیکھی ہے لیکن انھیں کامیابی نہ ہوسکی ۔یہ قوتیں اپنی مذموم کوششوں میں کامیاب کیوں نہ ہو سکیں؟ یہ راز بھی اس شیعہ عالم نے بتا دیا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ جو ہم عزاداری کرتے ہیں اور تعزیہ داری کرتے ہیں ،صرف ہم ہی تو نہیں کرتے ،اس میں تو سنی بھی ہمارے شانہ بشانہ ہو تے ہیں۔یہ بات انھوں نے درست کہی۔ایک زمانہ تھا کہ اپنے دیس میں ماتمی جلوس صرف شیعہ کے لیے ہی مخصوص نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں سنی بھی ایک حد تک شریک ہوا کرتے تھے۔کسی ماتمی جلوس کی ترتیب ذہن میں لائیے،اس کے قلب میں تو یہی سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنے والے نوجوان ہوا کرتے تھے۔ان کے ارد گرد زیادہ عمر کے لوگ ہوتے یا یوں سمجھئے ذرا کم جذباتی لوگ ہواکرتے جو دھیرے دھیرے ہاتھ کے اشارے سے ماتم میں شریک ہوتے ۔یہ لوگ ماتمی جلوس کا یوں سمجھئے کنارہ ہوا کرتے تھے ۔اس کنارے کا بھی ایک کنارہ ہوتا تھا۔یہ لوگ سنی ہوا کرتے تھے جن کے دل سیدنا حسینؓ کی یاد میں بھر آتے اور وہ گھروں سے نکل آتے یا اپنے شہر کے ماتم گساروں کو یقین دلانے کے لیے ساتھ چلتے کہ دیکھو ! اس غم میں تم تنہا نہیں ہو۔ یہ معاملہ جلوسوں میں بھی ہوتا اور مجالس عزا میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے لیکن بعد میں جب تشدد شروع ہوا تو جلوسوں کی سکیورٹی بڑھ گئی ۔پہلا انتظام تو خود عزا داروں نے کیا جو ایک بڑی سی رسی کو جلوس کے گرد لپیٹ لیتے کہ کوئی شر پسند اندر داخل نہ ہوسکے۔ دوسرا انتظام سکیورٹی فورسز کاتھا ۔اب نوبت یہ ہے کہ ان جلوسوں میں کوئی غیر شیعہ داخل نہیں ہو سکتا۔اب نہ تعزیہ دیکھنے کے شوقین تعزیہ دیکھنے جا سکتے ہیں اور نہ دکھ میں شراکت کا احساس پیدا کرنے کی کوئی صورت ہے۔اس سے نہ صرف باہمی ربط و ضبط ختم یا کم ہوا ہے بلکہ اس سے دوریاں پیدا کرنے والوں کا کام بھی نسبتاً آسان ہوا ہے۔یہ البتہ غنیمت ہے کہ ابھی تک عوامی سطح پر وہ کیفیات پیدا نہیں ہوئی ہیں جس کے نتیجے عوام ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہو تے ہیں۔
رہ گئی یہ بات کہ پھر تناؤ کی وجہ کیا ہے۔ بات تھوڑی کڑوی ہے مگرحقیقت ہے کہ دونوں کے طرف کے علماء یا علماء کے لبادے میں وہ جو کوئی بھی ہوتے ہیں ،خرابی پیدا کرتے ہیں اور مٹھی بھر ان کے پیرو کار سارا سال نفرت پھیلانا جن کا کاروبار ہے، نفرت پھیلاتے ہیں۔ ان دو عوامل کے ساتھ اب ایک تیسرا عامل بھی سرگرم عمل ہوگیا ہے جو مسلح ہے اور دھماکے کرتا ہے۔بات اب یوں بنی کہ پہلے دو عناصر فضامکدر کرتے ہیں اور آخری فریق حالات سازگار پاکر واردات کر تا ہے۔ہم اگر خواہ شیعہ ہوں یاسنی اپنی صفوں میں نفرت پھیلانے والوں کا سوشل بائیکاٹ کر کے اسے تنہا کرڈالیں تو ممکن ہے کہ وہ اپنے طرز عمل کے بارے میں از سرنو غور کر سکے اور وہ اپنی اصلاح کر نے پر آمادہ ہو جائے۔اس کے بعد صرف ایک ہی چیلنج رہ جائے گا مسلح عنصر کا۔اس کے ساتھ حکومت اور عوام مل کر زیادہ آسانی کے ساتھ دو دو ہاتھ کرسکتے ہیں۔بس ذرا ہمت کی ضرورت ہے۔ ذرا ہمت چاہئے۔ (فاروق عادل کا کالم، روزنامہ نئی بات 82 نومبر 2012 ء)