شیعہ سنی رواداری کا گہوارہ

حسان خان

لائبریرین
پنجاب کے وسط میں آباد ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو لہراتے کھیتوں کے بیچ مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کا گہوارہ ہے۔ اگرچہ پنجاب میں کئی گاؤں ملیں گے جن میں اسی طرح کے کھیت اور اسی طرح کے نشیب و فراز موجود ہوں گے مگر شاید اس طرح کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایک قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔
اس گاؤں میں مختلف بات یہ ہے کہ یہاں سنی اور شیعہ گذشتہ ایک سو سال سے ایک ہی مسجد میں سجدہ ریز ہوتے آ رہے ہیں۔ ملک میں جہاں فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے واقعات بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں وہاں اس گاؤں کا ماحول بتاتا ہے کہ وقت رک سا گیا ہے۔
یہ چھوٹا سا گاؤں پاکستان کی تاریخ کی کسی اچھی کڑی میں مقید ہو کر رہ گیا ہے۔ مسجد کے شیعہ امام ضلِ حسنین اذان دیتے ہیں اور ان کے پیچھے مقتدی نماز ادا کرتے ہیں اور ابھی گاؤں کے شیعہ نماز ادا کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ سنی خطیب حافظ عبدالرشید آ کر ایک اور جماعت کی امامت کرتے ہیں۔
حافظ عبدالرشید کہتے ہیں کہ ’ضلِ حسنین میرے بیٹوں جیسا ہے، میں اس کو بچپن سے ان گلیوں میں کھیلتا دیکھتا آ رہا ہوں، ہمارے آباو اجداد کے آپس میں گہرے مراسم تھے‘۔
اس گاؤں میں شیعہ اور سنی کا رشتہ خون کا ہے اور آپس کی شادیاں اس گاؤں کے تین سو گھرانوں کو یکجا رکھتی ہیں۔
24 سالہ پولیس اہلکار عاطف محمود اس انوکھی روایت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں جن کے گھر کے مرد شیعہ ہیں جبکہ عاطف کی والدہ اور بہن نے سنی فرقے سے وابستگی کا فیصلہ کیا۔ ہنستے بستے اس گھر میں مذہب کی وجہ سے آج تک شاید ہی کبھی کوئی جھگڑا ہوا ہو۔
عاطف کو یقین ہے کہ بزرگوں کی شروع کی ہوئی یہ روایات قائم رہیں گی۔ وہ کہتے ہیں ’یہ امن ہمیشہ ہمارے گاؤں میں رہے گا اور ہماری دعا ہے کہ اس طرح کا بھائی چارہ ایک دن پورے ملک میں قائم ہو جائے۔‘
پاکستان میں گذشتہ دو ماہ میں تقریباً دو سو شیعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اس قسم کی دہشت گردی پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
اس فرقہ واریت اور شدت پسندی سے اس گاؤں کے لوگ بھی خائف لگتے ہیں اور انہوں نے بار بار ہم سے یہ یقین دہانی طلب کی کہ اس گاؤں کا نام کہیں بھی نہیں لیا جائے گا۔
عاطف کی کزن نایاب زہرہ شیعہ ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ آخر ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہے، کوئی تیسری قوت ہے جو شیعہ اور سنی کو آپس میں لڑوانا چا ہتی ہے۔‘
پھر بھی گاؤں والوں کو امید کی کرن اپنے بچوں میں دکھائی دیتی ہے جو سب تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ گاؤں کے گرلز سکول کی ہیڈ ٹیچر شکیلہ بیگم کا کہنا ہے کے نئی نسل کو تفرقہ بازی سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ کم عمری ہی سے مذہبی ہم آہنگی کا کھرا سبق انہیں دیا جائے۔
جب تیسری جماعت کی سات سالہ طالبہ فرحت سے شیعہ اور سنی کا فرق پوچھا گیا تو ان کا جواب سادہ سا تھا اور وہ یہ کہ ’اماں کہتی ہیں شیعہ اور سنی مسلمان ہوتے ہیں۔‘
گاؤں کی پنجایت بھی اس نادر نظام کو سنبھالے ہوئے ہے مگر پھر بھی نجانے کیوں گاؤں کے بعض افراد کے دل میں ایک انجانا سا خوف ہے کہ کہیں شدت پسندی کی سوچ جو دہشت گردی کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی ہے، اس گاؤں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔
اس گاؤں کے ماضی اور حال کا منظر گاؤں کے سرپنچ دین محمد کی ضعیف آنکھوں میں ڈولتا نظر آیا اور ان کے سوال نے جہاں ماضی کی ایک اچھی اور روشن جھلک دکھائی وہیں سوالات کے کئی پشتے کھول دیے کہ ’پہلے تو پورا پاکستان ہمارے گاؤں جیسا تھا کوئی شیعہ سنی لڑائی نہیں تھی، پتہ نہیں اب ملک کو کیا ہو گیا ہے، ہمارے بچوں کے ذہن بدل گیے ہیں۔‘

ربط
 

غدیر زھرا

لائبریرین
اللہ پاکستان کے ہر گوشے سے یونہی فرقہ ورانہ فسادات کو ختم کر کے اسے امن کا گہوارہ بنا دے۔۔آمین ۔۔
 

arifkarim

معطل
شیعہ سنی کی لڑائی کے پیچھے وہ غیر ملکی عوامل ہیں جنہیں یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آخر کو روزی روٹی کا سوال ہے۔ :grin:
 
Top