ہیں، اسی وجہ سے حجاج بہت متفکر تھے کہ ایسا نہ ہو خواجہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دربار عالی میں حاضری نہ ہو سکے، لیکن اللہ تعالٰی کے فضل سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب قافلوں کے بغیر بھی بے خطر جا سکتے ہیں۔ اس کی شرح یہ کہ شریف محمد بن عون کو والئی مصر نے کئی سال تک مصر میں بند رکھا اور اب اس شرط پر مدینہ منورہ کا انتظام اس کے سپرد کیا ہے کہ مکے اور مدینے کے درمیان آنے جانے والے مسافروں کو مطلق کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہاں تک کہ ایک تنہا بڑھیا بھی رہزنوں کا خوف محسوس نہ کرے، چنانچہ وہ ان مبارک دنوں میں مصر سے مدینے آئے اور اعراب کو جمع کر کے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ قتل و غارت اور رہزنی سے باز رہیں گے۔ ۲۵ فروری 1840 عیسوی مطابق ۲۲ محرم الحرام 1256ھ کی شام مکے میں دو ماہ پانچ روز قیام کے بعد ہم مدینہ منورہ کے لئے چل پڑے اور وادی فاطمہ خلیص اور بئر قضیمہ پر منزلیں کرتے ہوئے ۲۶ محرم کو رابغ پہنچے۔
رابغ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ اس جگہ ایسی باد سموم چلی کہ ہمارے کئی ساتھی لقمہ اجل ہو گئے۔ ان کے گور و کفن کا انتظام کرنے کے لئے ۲۷ محرم کو بھی رابغ میں قیام کرنا پڑا۔ حالت یہ تھی کہ ایک کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں، ایک کا کفن سی رہے ہیں، ایک کو غسل دے رہے ہیں، ایک عالم نزع میں ہے اور ایک پر باد سموم کا اثر نمایاں ہو رہا ہے۔ مردوں کی تدفین کر کے اور بیماروں کو اٹھا کر ۲۸ محرم کو رابغ سے چل پڑے اور اگلی صبح بئر مستورہ پہنچ گئے۔ یہاں تک آتے آتے ہمارے کئی اور ساتھی بھی باد سموم کے اثر سے جنت کو سدھار گئے۔
۲۹ محرم کو بئر مستورہ سے چل کر وادی عصفرا، خیف اور جدیدہ میں سے ہوتے ہوئے ۴ صفر کو ذوالحلیفہ پہنچے۔ یہ اب بئر علی کہلاتا ہے اور مدینہ منورہ سے تین کوس کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ مبارک مقام ہے جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرم حج باندھا ہے ۔ جب ہمارا قافلہ ذوالحلیفہ سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ ایک عاشق شوریدہ سر رقصاں جا رہا ہے اور اس کی زبان پر یہ شعر جاری ہے۔
شکر للہ کہ نمردیم و رسیدیم بدوست
آفریں بادبریں ہمت مردانہ ما
(اللہ کا شکر ہے کہ میں مرنے سے پہلے دوست کے پاس پہنچ گیا ہوں۔ اس ہمت مردانہ پر آفرین ہے۔) اس نے یہ شعر کتنا برمحل پڑھا اس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ دن کا چھٹا حصہ گزر گیا تھا کہ زیارت طیبہ (مدینہ منورہ) کی سعادت کونین نصیب ہوئی۔ آداب ضروری بجا لانے اور سلطان ہردوسرا کے دربار میں حاضری سے مشرف ہونے کے بعد ہم نے جو کچھ کیا وہ کیا۔ منشی کرامت علی شہیدی جو مشہور شاعر ہیں اور جن کا ذکر میں نے گلشن بیخار، میں بھی کیا ہے، راستے میں وبا سے متاثر ہو گئے تھے۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
قسمت نگر کہ کشتہ شمشیر عشق یافت
مر گئے کہ زندگاں بدعا آرزو کنند
قسمت تو دیکھئے کہ شمشیر عشق کے مقتول نے وہ موت پائی ہے کہ زندہ افراد بھی دعا میں جس کی آرزو کرتے ہیں۔ جب نظر خواجہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبہ اطہر پر پڑتی ہے تو دیدہ و دل کے لئے کیف و سرور کا ایک عجیب عالم ہوتا ہے اور اس حریم قدسی میں جو کیفیات ظاہر ہوتی ہیں، ان کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس کو اس دربار میں حاضری کی سعادت نصیب ہو، جو اس بقعہ مبارکہ میں آ گیا، واللہ! موت سے پہلے جنت میں اس کا گزر ہو گیا۔ اگر یہ بات کہنے پر کوئی مجھ سے الجھے تو وہ تھوڑی سے زحمت کر کے اہل علم سے مابین قبری و منبری روضہ من ریاض الجنتہ کے معنی پوچھ لے۔ اس بندہ کمینہ کو اللہ تعالٰی نے اتنے انعامات سے نوازا ہے کہ اگر اسے عمر نوح مل جائے اور ہر سرمو کو طاقت گفتار مل جائے، پھر تمام عمر اس کا شکر ادا کرتے گزر جائے تب بھی