شمشاد
لائبریرین
اس کے ایک انعام کا شکر مشکل ہی سے ادا ہو سکے۔ اب یہاں حاضری کی جو نعمت اللہ تعالٰی نے عطا کی ہے وہ تمام انعامات سے بڑی نعمت ہے۔ الحمد للہ ثم الحمد اللہ مدینہ منورہ جس پر ہر آن انوار الٰہی باران بہار کی طرح برستے ہیں اس کے باشندے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عمیم کی تاثیر سے نہایت متواضع اور مہمان نواز ہیں۔
اس وقت یہاں کے علماء میں سب سے ممتاز شیخ محمد عابد ہیں۔ ان کی جائے ولادت سندھ ہے اور پرورش یمن میں ہوئی ہے۔ چند سال سے حرم مدینہ میں مقیم ہیں۔ ان کی عمر ستر اور اسی کے درمیان ہے۔ نہایت پاک باطن اور پاکیزہ خو بزرگ ہیں۔ مسجد نبوی میں درس دیتے ہیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان درمختار اور مغرب و عشا کے درمیان تفسیر بیضادی، کے مطالب بیان کرتے ہیں۔ وسعت روایت اور جرح و تعدیل رواۃ دونوں اعتبار سے اعلٰی درجے کے محدث ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ درمختار پر حاشیہ لکھا ہے جو نو دس بڑی بڑی جلدوں میں ہے۔ ہر وقت تصنیف و مطالعے میں مشغول رہتے ہیں۔ ایک مصری نابینا عالم ہیں جن کو اکثر علوم میں مہارت حاصل ہے۔ ایک اور عالم ہیں وہ بھی غالباً مصر کے ہیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان درس دیتے ہیں، یہاں رام پور کے ایک بزرگ سید گل محمد ہیں، ان جیسے دنیا سے بے رغبت لوگ شاذ ہی ملتے ہیں۔
ایک بزرگ مولوی عبد اللہ ہیں جو ہندوستان کے امیرزادوں میں سے ہیں۔ دنیوی جاہ و حشمت ترک کر کے در رسول پر آ پڑے ہیں۔ نہایت شیریں زبان اور خوش بیان ہیں۔ لوگوں کے اکثر رکے ہوئے کام ان کے ذریعے حسب دلخواہ پورے ہو جاتے ہیں۔ ایک بزرگ شیخ عبد اللہ بن عمر ہیں، سادات حضر موت سے ہیں۔ میں نے بمبئی میں ان کی شہرت سنی تھی۔ روانگی کے وقت ان سے سرسری تعارف ہوا۔ میں نے ان جیسا پابند اوقات کم دیکھا ہے۔
مسجد نبوی میں خطبا دائمہ کی تعداد اسی کے لگ بھگ ہے۔ مسجد میں صرف حنفی اور شافعی امام جماعت کراتے ہیں۔ احناف صبح کی نماز کے سوا باقی سب نمازوں میں سبقت کرتے ہیں۔ حنبلیوں اور مالکیوں کی جماعت مسجد نبوی میں نہیں ہوتی۔ خطبائے مدینہ جیسی فصاحت و بلاغت اور ان جیسا حسن بیان میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ اکثر پیش امام حنفی ہیں، چند شافعی اور دو تین مالکی۔ حنبلی معلوم نہیں کوئی ہے بھی یا نہیں۔ مدینہ منورہ میں ترک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ استنبول کا آئین اور قسطنطنیہ کا قانون مکے سے زیادہ یہاں رائج ہے۔
ایک ماہ نو دن مدینہ میں قیام کے بعد یوم فراق آ پہنچا۔ بھرے دل اور اشکبار آنکھوں سے اس شہر مقدس کو الوداع کہا اور ۱۴ ربیع الاول کو مکہ معظمہ کی طرف چل پڑے۔ دو منزلیں طے کر کے بدر کا قصد کیا اور ۱۷ ربیع الاول کو اواخر شب میں وہاں پہنچے۔ صبح شہدا کے مزاروں پر فاتحہ پڑھی۔ بدر ایک چھوٹی سے بستی ہے۔ یہاں پانی کا چشمہ جاری ہے۔ سنا ہے آگے پانی کمیاب ہے، اس لئے ہم نے یہاں سے پانی ساتھ لے لیا۔ ۱۸ ربیع الاول کو بدر سے روانہ ہوئے اور خیط، بئر مستورہ، رابغ، بئر قضیمہ، خلیص، وادی فاطمہ اور سرف پر منزلیں کرتے ہوئے ۲۶ ربیع الاول کو آدھی رات کے وقت مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ احرام رابغ میں ہی باندھ لیا تھا۔ سب ہی نے طواف و سعی بین الصفا والمروہ کا فریضہ ادا کیا۔
اہل مکہ موسم گرما کی شدت میں طائف چلے جاتے ہیں۔ یہ گرمی کا زمانہ ہے۔ مکے سے قافلے طائف جا رہے ہیں۔ راقم کے دل میں بھی طائف کی سیر کا اشتیاق پیدا ہوا۔ معلوم ہوا کہ طائف کے دو راستے ہیں، ایک جبل کرہ سے، اس میں ایک دن لگتا ہے لیکن پہاڑ کی چڑھائی اترائی بہت تکلیف دہ ہے، اس لئے اکثر لوگ دوسرے راستے سے سفر کرتے ہیں۔ اس دوسرے راستے کی بھی تین شاخیں ہیں۔ (۱) براہ زیمہ، اس میں سایہ دار
اس وقت یہاں کے علماء میں سب سے ممتاز شیخ محمد عابد ہیں۔ ان کی جائے ولادت سندھ ہے اور پرورش یمن میں ہوئی ہے۔ چند سال سے حرم مدینہ میں مقیم ہیں۔ ان کی عمر ستر اور اسی کے درمیان ہے۔ نہایت پاک باطن اور پاکیزہ خو بزرگ ہیں۔ مسجد نبوی میں درس دیتے ہیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان درمختار اور مغرب و عشا کے درمیان تفسیر بیضادی، کے مطالب بیان کرتے ہیں۔ وسعت روایت اور جرح و تعدیل رواۃ دونوں اعتبار سے اعلٰی درجے کے محدث ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ درمختار پر حاشیہ لکھا ہے جو نو دس بڑی بڑی جلدوں میں ہے۔ ہر وقت تصنیف و مطالعے میں مشغول رہتے ہیں۔ ایک مصری نابینا عالم ہیں جن کو اکثر علوم میں مہارت حاصل ہے۔ ایک اور عالم ہیں وہ بھی غالباً مصر کے ہیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان درس دیتے ہیں، یہاں رام پور کے ایک بزرگ سید گل محمد ہیں، ان جیسے دنیا سے بے رغبت لوگ شاذ ہی ملتے ہیں۔
ایک بزرگ مولوی عبد اللہ ہیں جو ہندوستان کے امیرزادوں میں سے ہیں۔ دنیوی جاہ و حشمت ترک کر کے در رسول پر آ پڑے ہیں۔ نہایت شیریں زبان اور خوش بیان ہیں۔ لوگوں کے اکثر رکے ہوئے کام ان کے ذریعے حسب دلخواہ پورے ہو جاتے ہیں۔ ایک بزرگ شیخ عبد اللہ بن عمر ہیں، سادات حضر موت سے ہیں۔ میں نے بمبئی میں ان کی شہرت سنی تھی۔ روانگی کے وقت ان سے سرسری تعارف ہوا۔ میں نے ان جیسا پابند اوقات کم دیکھا ہے۔
مسجد نبوی میں خطبا دائمہ کی تعداد اسی کے لگ بھگ ہے۔ مسجد میں صرف حنفی اور شافعی امام جماعت کراتے ہیں۔ احناف صبح کی نماز کے سوا باقی سب نمازوں میں سبقت کرتے ہیں۔ حنبلیوں اور مالکیوں کی جماعت مسجد نبوی میں نہیں ہوتی۔ خطبائے مدینہ جیسی فصاحت و بلاغت اور ان جیسا حسن بیان میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ اکثر پیش امام حنفی ہیں، چند شافعی اور دو تین مالکی۔ حنبلی معلوم نہیں کوئی ہے بھی یا نہیں۔ مدینہ منورہ میں ترک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ استنبول کا آئین اور قسطنطنیہ کا قانون مکے سے زیادہ یہاں رائج ہے۔
ایک ماہ نو دن مدینہ میں قیام کے بعد یوم فراق آ پہنچا۔ بھرے دل اور اشکبار آنکھوں سے اس شہر مقدس کو الوداع کہا اور ۱۴ ربیع الاول کو مکہ معظمہ کی طرف چل پڑے۔ دو منزلیں طے کر کے بدر کا قصد کیا اور ۱۷ ربیع الاول کو اواخر شب میں وہاں پہنچے۔ صبح شہدا کے مزاروں پر فاتحہ پڑھی۔ بدر ایک چھوٹی سے بستی ہے۔ یہاں پانی کا چشمہ جاری ہے۔ سنا ہے آگے پانی کمیاب ہے، اس لئے ہم نے یہاں سے پانی ساتھ لے لیا۔ ۱۸ ربیع الاول کو بدر سے روانہ ہوئے اور خیط، بئر مستورہ، رابغ، بئر قضیمہ، خلیص، وادی فاطمہ اور سرف پر منزلیں کرتے ہوئے ۲۶ ربیع الاول کو آدھی رات کے وقت مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ احرام رابغ میں ہی باندھ لیا تھا۔ سب ہی نے طواف و سعی بین الصفا والمروہ کا فریضہ ادا کیا۔
اہل مکہ موسم گرما کی شدت میں طائف چلے جاتے ہیں۔ یہ گرمی کا زمانہ ہے۔ مکے سے قافلے طائف جا رہے ہیں۔ راقم کے دل میں بھی طائف کی سیر کا اشتیاق پیدا ہوا۔ معلوم ہوا کہ طائف کے دو راستے ہیں، ایک جبل کرہ سے، اس میں ایک دن لگتا ہے لیکن پہاڑ کی چڑھائی اترائی بہت تکلیف دہ ہے، اس لئے اکثر لوگ دوسرے راستے سے سفر کرتے ہیں۔ اس دوسرے راستے کی بھی تین شاخیں ہیں۔ (۱) براہ زیمہ، اس میں سایہ دار