صاحبزادہ غلام نظام الدین کا فکری مقام و مرتبہ از ثروت طارق حبیب۔

خواجہ طلحہ

محفلین
اگر میں آپ سے معذرت کے ساتھ پوچھوں کہ آپ نے شعرناب،ہوالعظم،دیباچہ ہو العظم فوزالمبین،چاندنی کا شہر، پرگوہر، ایک سو سال بعد،جھلک،اور شاخ گل کا مطالعہ کہا ہے۔تو یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔لیکن اس ساری صورت حال کے ذمہ دار میرے خیال میں اتنے آپ نہ ہوں ،جتنے خود ان تصانیف کے مصنف ہیں۔تصوف انسان کو دنیاوی آلائش واغراض سے دور لے جاتا ہے،چنانچہ دوریش صفت شخصیات ہمیشہ اپنے آپ کو چھپائے رکھتی ہیں۔ان کتابوں کے مصنف پروفیسر صاحبزادہ غلام نظام الدین بھی ایسے ہی درویش منش انسان تھے،جن کے فکر انگیز نثر سے ایک زمانہ ابھی تک ناآشنا ہے۔سہہ ماہی شبیہ کے تحت جب ًحضرت خواجہ غلام نظام الدین معظم آبادی رحمتہ اللہ علیہ نمبر پر کام ہورہاتھا، تو اس مرد بے نیاز کے کتنے ہی داخلی اور خارجی حقائق سامنے آئے،انکی کتابوں میں سمٹی نثر کے بکھرے ہوئے موضوعات نے مجھے ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا ۔۔۔۔درج بالا تصانیف کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھ پر حیرت کے کتنے در واہوئے ،ایک انتی بڑی علمی اور ادبی شخصیت کی تحریریں بلاشبہ کسی کرامت سے کم نہیں ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
حضرت صاحبزادہ غلام نظام الدین معظمی رحمتہ اللہ علیہ دینی و دنیوی علم و بصیرت میں بہت آگےتھے۔آپ نے ایم اے فارسی اور ایم اے اردو ﴿پنجاب یونیورسٹی﴾ سے کرنے کے بعد بطور استاد نوجوانوں میں تقسیم فیض کا سلسلہ شروع کیا۔آپ گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج سرگودھا ،گورنمنٹ حشمت علی کالج راولپنڈی،اور گورنمنٹ کالج بھلوال میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔مذکورہ تصانیف حضرت خواجہ کی فکر رساء روحانی معاملات کے علاوہ معاشی ،معاشرتی اور قومی موضوعات کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہیں،تصانیف سے فکری تنوع ثابت ہے۔
آپ کا شعری مجموعہ ًشاخ گل ً﴿1977ء﴾ فارسی اور اردو شعری روایت کا پاسدار ہے۔جس کا بنیادی موضوع عشق ہے،جس کے تحت تصوف اور معرفت کے معاملات کمال خوبصورتی سے ادا کئے گئے ہیں۔کلاسیکی طرز ادا نے انکی شاعری کے حسن میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لکھنے والے چند مخصوص موضوعات کے گرد ہی طواف کرتے رہتے ۔حضرت خواجہ کی نثر کا سرسری جائزہ لینے سے بھی یہ امر واضح ہے کہ انکی تحریروں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔انہوں نے کسی ایک نقطہ نظر پر خاصہ فرسائی نہیں کی،بلکہ انسان کے داخلی،خارجی،معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل کی نقاب کشائی کی ہے۔خانقاہی نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے،اور اسکی تجدید کے اصول و قواعد بتائے ہیں،پاکستانی معاشرے کے مسائل کےحل کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے،رومانوی انداز تحریر میں چھپا کے معرفت کے نکتے بیان کردیے ہیں۔اس رنگا رنگی کے باعث آپ کا طرز نگارش،آپ کی نگارشات کو نکھارتا چلا جاتا ہے۔
حضرت خواجہ کا ایک شاہکار ًشعر ناب ً﴿1968ء﴾ ہے۔فارسی ، اردو اور پنجابی شاعری کے انتخاب کے ساتھ ساتھ شعراء کے احوال اور انکی شاعری پر پرمغز و مختصر تنقیدی نوٹ نے اسکی وقعت و اہمیت کو دو چند کردیا ہے۔ یہ انتخاب آپ کی شخصیت کے داخلی گوشوں کو بے نقاب کرتا ہے،جن سے روحانیت اور تصوف سے آپ کا گہرا تعلق واضح ہوجاتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔
 
Top