خواجہ طلحہ
محفلین
اگر میں آپ سے معذرت کے ساتھ پوچھوں کہ آپ نے شعرناب،ہوالعظم،دیباچہ ہو العظم فوزالمبین،چاندنی کا شہر، پرگوہر، ایک سو سال بعد،جھلک،اور شاخ گل کا مطالعہ کہا ہے۔تو یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔لیکن اس ساری صورت حال کے ذمہ دار میرے خیال میں اتنے آپ نہ ہوں ،جتنے خود ان تصانیف کے مصنف ہیں۔تصوف انسان کو دنیاوی آلائش واغراض سے دور لے جاتا ہے،چنانچہ دوریش صفت شخصیات ہمیشہ اپنے آپ کو چھپائے رکھتی ہیں۔ان کتابوں کے مصنف پروفیسر صاحبزادہ غلام نظام الدین بھی ایسے ہی درویش منش انسان تھے،جن کے فکر انگیز نثر سے ایک زمانہ ابھی تک ناآشنا ہے۔سہہ ماہی شبیہ کے تحت جب ًحضرت خواجہ غلام نظام الدین معظم آبادی رحمتہ اللہ علیہ نمبر پر کام ہورہاتھا، تو اس مرد بے نیاز کے کتنے ہی داخلی اور خارجی حقائق سامنے آئے،انکی کتابوں میں سمٹی نثر کے بکھرے ہوئے موضوعات نے مجھے ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا ۔۔۔۔درج بالا تصانیف کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھ پر حیرت کے کتنے در واہوئے ،ایک انتی بڑی علمی اور ادبی شخصیت کی تحریریں بلاشبہ کسی کرامت سے کم نہیں ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔